امریکہ میں گھر بیٹھے مالدار بننے کے سینکڑوں مواقع ہیں یہ مواقع نیویارک کی وال سٹریٹ کی اسٹاک ایکسچینج فراہم کرتی ہے۔تین چیزوں پر اس کا دارومدار ہے۔تعلقات، تعلیم اور ذہانت کے علاوہ تھوڑی سے زیادہ ہیرا پھیری ہونی ضروری ہے۔یعنی غلط کام کرنے پر آپ تیار رہیں کہ پکڑ ہوسکتی ہے۔یہ امریکہ کی بزنس کا حسن ہے کہ آپ نے ایک بلین کا ٹیکس بچایا ہے پکڑے جانے پر ایک اچھا وکیل کیجئے اور سزا کے طور پر دس پندرہ فیصدی واپس اور دو سے تین سال کی جیل وکیل بھی خوش اور آپ بھی خوش تبدیلی آپ وہوا کے لئے آپ جیل کی سیر کرلیں شاید یہ طریقہ سعودی عرب کے ولی عہد نے یہاں سے ہی سیکھا ہوگا۔جس کے تحت انہوں نے کئی عرب شہزادوں اور وسرے مالدار لوگوں کے ساتھ ایک عالیشان ہوٹل میں قید کردیا۔سزا یہ تھی کہ جتنی دولت انکے پاس ہے اس کا15یا بیس فیصد واپس کریں اور آزادی لیں اور ایک ہفتہ میں فیصلہ ہوگیا۔شہزادہ بھی خوش اور مجرم بھی خوش ہم سوچ رہے ہیں ضرور یہ طریقہ ڈونلڈ ٹرمپ ہمارے سابقہ صدر کے داماد اور اس وقت صدر کےس سینئر بین الاقوامی پالیسی کے مشیر جارڈ کشنر نے بتایا ہوگا۔جو مشرق وسطیٰ کے حکمرانوں کے دوست بن کر انکی گردونوں پر سوار تھے۔اور معاہدے کا نام دے کر ڈیل کرا رہے تھے کہ اسرائیل کے ساتھ امن کا سودا کرو بہت فائدے ہیں۔دونوں کے بظاہر یہ امن معاہدہ تھا لیکن ایسا نہیں جو مصر اسرائیل اور اسرائیل اردن کے درمیان تھا اس لئے کہ مشرق وسطیٰ سے اسرائیل کو کیا خطرہ تھا وہ بے چارے خوفزدہ تھے کہ امریکہ بہادر انکی بادشاہت کے کفن میں کیل نہ ٹھونک دے یہ بھی کہہ دیا ہوگا کہ خبردار جو فلسطین کا نام لیا۔لہذا سب نے بے چوں چرا بات مان لی۔کشنرکو مالی فائدہ ہوا ہوگا جو ہمیں نہیں معلوم لیکن یہ کیا کم ہے کہ یہاں کے مشہور وکیل جو ہارورڈ یونیورسٹی میں قانون کے ساتھ مشرق وسطیٰ بھی پڑھاتے ہیں۔اور پچھلے اتوار انہوں نے نوبل پرائز کمیٹی کو ایک یادداشت بھجوا دی کہ وہ جارڈ کشنر کو امن کے انعام کا حقدار سمجھتے ہیں۔بہت ممکن ہے کہ کشنر کو امن کاPEACE PRIZEمل جائے جس کی مالیت ایک ملین ڈالرز سے زیادہ ہے یاد ہوگا آپ کو ملالہ یوسف زئی کو بھی امن کا پرائز مل چکا ہے۔بے چارے عبدالستار ایدھی کو کون پوچھتا ہے۔سارے کام مل کر ہوتے ہیں یہاں عوام کی پسند یا نا پسند کا خیال نہیں کیا جاتا البتہ ہر سیاست دان کہتا یہ ہی کہ یہ ملک اور قوم کے فائدے میں ہے۔تازہ مثال ہمارے نئے صدر ہیں آتے ہی چھ سات ایکزیوٹیو آرڈر پر دستخط کر دیئے جو پہلے سے تیار تھے۔سب سے پہلے انہوں نے اپنے دوستوں کا خیال کیا اس میں کچھ ووٹرز کی پسند کا بھی خیال رکھا ہے۔سارے کام رکے ہوئے تھے کہ ٹرمپ صاحب نے دلالوں کی مداخلت پر5سال کے لئے پابندی لگا دی تھی۔جوبائیڈن صاحب نے آتے ہی حکم کے تحت ختم کردی اور یہ دلال(LOBBYST)جن کی آمدنی ختم ہوچکی تھی۔برسرروزگار لگ گئے یہ بھی اچھا بزنس ہے آپ اچھی شخصیت کے مالک ہوں اثرورسوخ ہوں تو دلالی کے بزنس میں آکر تاجروں کے لئے کام کیجئے اور اپنا منافع بتائیے، باعزت پیشہ ہے۔
بات ہو رہی تھی وال اسٹریٹ اور اس سے جڑے بروکرز کی جو مٹی کو سونا بنا کر بیجتے ہیں اندر کی بات انہیں معلوم ہوتی ہے سونا زیورات کے علاوہ الیکٹرانک کے سامان میں استعمال ہونے گا تو 300سو ڈالر فی اونس سے بڑھ کر1500ڈالر پر پہنچا دیا خیال رہے مغربی ممالک میں زیورات نہیں پہنے جاتے محبوبہ کے لئے ڈائمنڈ کی انگوٹھی یادگار چیز ہے۔حیران ہونگے کہ ہیرے کی قیمت میں کوئی زیادہ اضافہ نہیں ہوا۔لیکن ہیرا پھر بھی ہیرا ہے۔
آپ کے پاس بیجنے کو کچھ نہیں لیکن خیال ہے کہ بغیر دوکان کے بھی آپ گھر بیٹھے ارب پتی بن سکتے ہیں۔مثال دو دوستوں کی ہے جو دو دوستوں برائن چیسکی اور جوگییا نے قائم کی2007ءمیں نیویارک سے تنگ آکر سان فرانسکو جا بسے چند ہوا بھر کر بیڈ خریدے جب وہ مکان کرایہ دینے کے قابل نہ تھے اور نہ ہی ہوٹلوں میں جگہ تھی۔ایک چھوٹی سی جگہ لے کر انہوں نے کمرے میں وہ بیڈ ڈال دیئے اور ناشتہ کا بھی انتظام رکھا۔بورڈ لگا دیا۔ایربیڈ اینڈ بریک فاسٹ یعنی ہوا بھرا بیڈ اور ناشتہ اور قیمت رکھی صرف80ڈالر جو سان فرانسکو میں جگہ کی کمی کی وجہ سے نہایت مقبول ہوئی خیال رہے انکا پہلا مہمان ایک گراتی انڈین تھا یہ کاروبار ایسا چمکا کہ ہارورڈ یونیورسٹی سے تعلیم سے فارغ ایک اور دوست بھی مل گیا اور چوتھا آدمی آرکیٹیکٹ تھا اب یہ ایک کمپنی بن گئی نام وہ ہی تھاAIRBNBیہ بزنس بہت فائدہ مند ثابت ہوا پچھلے سال اسکے مالکوں نے ایسے پبلک کر دیا سال2021کے شروع ہوتے ہی اسکی مالیت86.5بلین ڈالر ہوچکی ہے۔یہ کمپنی اپنے6300ملازمین کے ساتھ دنیا کے ہر ملک اور ہر شہر میں بزنس کر رہی ہے اور چھوٹے چھوٹے مالک مکانوں کو اپنے ساتھ شامل کرکے فائدہ پہنچا رہی ہے۔جب کہ انکے پاس آفس دوکان یا اسٹور میں بیچنے کے لئے کچھ نہیں۔آپ اس کے ممبر بن کر اپنے مکان کے کسی حصے کو کرایہ پردے کر مالی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
دوسرے دنیا کے سب سے مالدار جیف بے زیو ہیں جو ایک جگہ سے خرید کر(ادھار) عام صارفین کی مانگ پوری کرتے ہیں بنیان سے لے کر جوتے پین پنسل، دوائیں، کھانے پینے کی چیزیں پتلون قیمض ٹائی مطلب یہ خود میں فوڈ مارکیٹ سے ڈیپارٹمنٹل اسٹور ہیں۔اسکے بعد آتا ہے الیکٹرک کارTESLAکے مالک ایلن مسک،24سالہ ایلن کی کمپنی839ڈالرز شیر کے ساتھ150بلین ڈالر کے مالک ہیں۔انہوں نےTWITTERپر غلط بیانی کی تھی کہ شیر960ڈالر تک جاسکتا ہے یا جائیگا۔امریکن سکیورٹی اور ایکسیچنج نے دھر لیا۔جرمانہ کیا اور تین سال تک کمپنی میں داخلے پر پابندی لگا دی جرمانہ20ملین ڈالرز کا تھا اور جب سزا ختم ہوئی تو موجاں ہی موجاں حکومت نے الیکٹرک کار خریدنے پر20سے25ہزار ڈالر(کار کی کم سے کم قیمت40ہزار ڈالر)کی ٹیکس چھوٹ دی ہے۔اور لوگ دھڑا دھڑLEASEپر کار خرید رہے ہیں۔اب تک سال میں500ہزار کاریں بکی ہیں اسکے ساتھ ہی ایلن مسک نے نجی طور پر شیر بیچ کرSPACE SHIPناسا کے تعاون سے بنایا ہے کہ یہ ناسا کے لئے عوام کے لئے بھی خلا میں پرواز کرئینگے۔کمپنی کا نامSPACEX ہے۔COVID-19نے جہاں بہت سے بزنس تباہ کئے ہیں۔وہاں چند کمپنیاں فائدے میں ہیں جس میںAMAZONدنیا بھر میں مال بنا رہی ہے۔آپ بھیIDEAبیچیں۔
٭٭٭