ارشمید س نہ ہوتا تو تو بڑے بڑے بحری جہاز سمندروں پر نہ رینگ رہے ہوتے۔اور نیوٹن نہ ہوتا تو انسان خلا میں جانے کی نہ سوچتا اور یہ بھی کہ ہر چیز گول زمین سے جڑی ہوئی ہے۔کشش ثقل کے مرکز طرف یہ انسان کی سوچ تھی اور اقبال نے کہا تھا”محبت مجھے ان جوانوں سے ہے۔
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
قرآن پاک میں بھی ہے کہ ساتوں آسمانوں کی کھوج کرو۔بڑے مفکر فلسفی، اور دانشمندوں نے اپنے علم سے دوسروں کو آگاہی دی ہے اور یہ لوگ اپنا نام چھوڑ گئے ہیں۔سقراط، بقراط، افلاطون نے انسانی فطرت اور حرکات کو تحقیق کے دائرے میں لاکر دنیا کو بتایا ہے کہ ان کیس چڑیا کا نام ہے کامیابی کے پیچھے کیا راز ہے۔محبت میں کیا براسراریت ہے۔صدیوں پہلے کا انسان بڑے بڑے دانشمندوں کا اور فلسفیوں کا شاگرد بننا پسند کرتا تھا۔مولانا رومی جب شمس تبریز سے ملے تو وہ ایک استاد تھے یہ واقعہ ہے کہ شمس تبریز جن کی پیدائش ایران کی ہے اور خوئی(ایران)میں دفن ہیں اور مولانا رومی سے22سال بڑے تھے۔ترکی میں کونیا کے علاقے میں نکل آئے دیکھا ایک تالاب کے کنارے ایک شخص کتابیں پھیلائے بیٹھا ہے۔پوچھا یہ کیا ہے مولانا رومی نے انہیں جاہل سمجھتے ہوئے کہا”وہ جو تم نہیں سمجھو گے”یہ سن کر شمس تبریز نے ساری کتابیں اٹھا کر تالاب میں پھینک دیں۔”مولانا رومی نے غصہ سے پوچھا”یہ کیا کر رہے ہو تم شمس تبریز کا جواب تھا۔یہ وہ ہے جو تم نہیں سمجھو گے”اور پھر دوبارہ ان کتابوں کو نکال کر انکے سامنے رکھ دیا۔مولانا رومی نے دیکھا کتابیں خشک تھیں اور ان پر خاک اٹی ہوئی تھی۔یہ کچھ دیکھ کر وہ ان کے مرید بن گئے اور بے حد قریب آگئے۔اتنے کہ ان کے شاگردوں اور مریدوں کو حسد ہونے لگا۔کہا یہ جاتا ہے کہ مولانا رومی کے صاحبزادے نے ان کو قتل کردیا تھا۔اور کو نیا سے وہ پراسرار طور پر غائب ہوگئے تھے۔کیا سچ کیا لغو۔شمس تبریز کا مزار خوئی(ایران) میں ہے اور مولانا رومی کو نیامیں دفن ہیں انکا مزار اندر اور باہر سے دیکھنے کی چیز ہے اور فن تعمیر کا نمونہ ہے۔شام اور ترکی میں تین مقبرے دنیا بھر سے آئے مسلمان سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہیں۔استنبول میں آنحضرت ایوب انصاری، کو نیا میں مولانا رومی جہاں دروازے اور انکی قبر کے اوپر عربی میں حضرت مولانا لکھا ملے گا اور ایک اور بزرگ العربی جو کہا جاتا ہے الطغرل(عثمان کے والد) کے وقت میں ترکی میں آئے تھے اور شام میں دفن ہیں۔پچھلے وقتوں میں ایسے ہی عالم دین اور صوفی لوگوں کی کہاوتیں سینہ بہ سینہ ہندوستان تک پہنچی ہیں اور بہت سے عالم دین ہندوستان اور پاکستان تک اسلام کو لے کر آئے تھے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مولانا رومی کی قبر(عقبرہ)ملتان میں ہے اور باہر لکھا ہے شمس تبریزی شمس تبریز اور مولانا رومی دونوں فارسی بولتے تھے اور انکا کلام بھی اسی زبان میں ہے جو صوفیانہ ہے ان کی تعلیمات آج کے دور میں قصہ یارینہ لگتی ہیں۔ان کی حکایات کو لوگ پڑھتے ضرور ہیں لیکن عمل نہیں کرتے صوفیانہ کلام اللہ کی قربت کی نشاندہی کرتا ہے۔یہ ساری باتیں جو صوفیائے کرام اور عالم دین کہہ گئے ہیں۔قرآن حکیم کی روشنی میں حضورصلعم کی احادیث سے متاثر ہو کر بیان کی گئی ہیں۔لیکن لوگ ان پر عمل کرتے نظر نہیں آتے پچھلے دنوں ایک بے گناہ سری لنکن کا سیالکوٹ میں قتل اس بات کا تازہ ثبوت ہے اور علمائے دین صوفیائے حضرات کی روحوں کو چھلنی کرنے کے مترادف ہے۔مولانا رومی کی کچھ حکایات درج کرتے چلیں۔
”کسی چیز کے کھو جانے کا دکھ نہ کرو وہ کسی اور شکل میں تمہیں مل جائیگی””اپنے الفاظ میں جان پیدا کرو آواز میں نہیں کہ آسمان کی گرج نہیں بلکہ بارش کا پانی ہی پھولوں اور پودوں کو سیرآب کرتا ہے”
”محبت کے اقرار میں وجہ کی کوئی اہمیت نہیں”
”اپنے دل کو اتنا مجروح کرو کہ وہ کھل جائے”
لیکن آج کے دور میں انٹرنیٹ اور آئی فون نے انسانوں کے جذبات اظہار، محبت ماحول پر قبضہ کرکے انسانیت کو مجروح کردیا ہے۔
مولانا شمس تبریز کہتے ہیں”دنیا کو بدلنا ہے تو خود کو بدلو”
مت بھولو کہ جو شیطان کو سمجھتا ہے وہ خدا کو بھی پہچانتا ہے۔
”دل اور دماغ دو مختلف چیزیں ہیں اور دونوں کے فیصلے بھی مختلف ہوتے ہیں”۔
کیا یہ باتیں ہمارے دور کے حکمرانوں، عوام اور معاشرے سیاست دانوں کی سمجھ میں آتی ہیں اگر وہ سنجیدہ ہوتے تو صرف دو چیزوں دنیا بدل سکتے تھے اور اپنی آخرت سنوار سکتے تھے قرآن پاک اور اپنے رسول پاک کی زندگی پر عمل کرکے پچھلے زمانے کے لوگ تعلیم (شعوری اور کتابوں کی تعلیم) سے جڑے ہوتے تھے۔خاندان ہوتا تھا بزرگ ہوتے تھے اور خواتین جو بچوں کو بہتر انسان بننے کی تربیت دیتی تھیں جب سینما آیا تو اچھی کہانیوں پر معاشرے کی بہتری پر مبنی پلاٹ پر لکھی کہانیوں کو فلمایا گیا بدلتے وقت کی عکاسی کی گئی۔سینما دیکھنا واحد تفریح تھی اور جو مالدار تھے ناچ گانا انکا شغل تھا طوائفوں کے لئے علاقے تھے۔اور انکا اثر گھروں میں نہیں ہوتا تھا۔لیکن ان علاقوں کو ختم کر دیا گیا وہ طوائفیں اپنے مالکوں کی مدد سے پاش علاقوں میں منتقل ہوگئیں۔1982میں ہم ڈیفنس کے ایک ایسے بنگلے میں گئے جہاں بیورو کریٹ اور تاجر طبقہ اپنا غم اور تھکن مٹانے آتا تھا۔شیاب اور شراب کا بازار گرم تھا۔ان کے پاس پیسہ آیا تو مالداروں کی رکھیلوں کے بچے لندن کہنا ڈا پڑھنے گئے وہاں سے واپسی پر انہوں نے ماڈلنگ اور پھر ٹی وی ڈراموں میں قدم رکھا اب کسی لڑکی سے بھی کوئی بھی گندہ کردار کروایا جاسکتا ہے۔شہرت کی خاطر ان نوجوانوں، شرم وحیا اتار کر پھینک دی ہے جو انہیں کبھی ملی نہیں تھی۔حالیہ ڈرامہ”محبت وخدا”بڑی مشکل سے پورا دیکھا اور طبیعت مکدر ہوگئی۔اس لئے نہیں کہ ہمارے پرانے زمانے کے ہیں بلکہ یہ ڈرامے بنانے والے، لکھنے والے اداکاری کرنے والے پروڈیوسرز سب کے سب مدر پدر آزاد ہیں۔ہر چیز کو فیشن کا نام دے کر معاشرے کی دھجیاں بکھیررہے ہیں۔
٭٭٭