ہمارا کلچر ہماری پہچان !!!

0
123
مجیب ایس لودھی

مجیب ایس لودھی، نیویارک

دنیا اس قدر تیزی کے ساتھ اپنی منازل طے کر رہی ہے کہ سال بھی مہینوں کی طرح معلوم ہوتے ہیں ، کسی بھی پرانے واقعے کو یاد کر کے ہماری زبان سے ایک ہی فقرہ نکلتا ہے کہ یہ تو کل کی بات معلوم ہوتی ہے ، دنیا کی اس چکا چوند میں ہم تیزی سے بہتے جا رہے ہیں اور مصروفیت کا یہ عالم ہے کہ ایک گھر میں رہتے ہوئے والدین کے پاس بچوں کیلئے اور بچوں کے پاس والدین کے لیے وقت نہیں ہے، اس چکا چوند میں ہم سب اپنی اقدار، اپنے دین کی اہمیت کو بھولتے جا رہے ہیں ، مثال کے طور پر ہمار ا دین ہمیں بتاتا ہے کہ انسانیت کا مطلب کیا ہے، انسانیت کا پہلا قدم یہ ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کے دُکھ اور ُسکھ سے صرف واقف ہی نہ ہو بلکہ احساس کرے ، اس طرح کہ اگر کسی ایک انسان کے جسم کے کسی ایک حصے میں اگر کوئی تکلیف ہوتی ہے تو پورے جسم کو اس تکلیف کا احساس ہوتا ہے جبکہ آج کی دنیا میں سوشل میڈیا پر ایک تماشائی کی طرح سارا دن میں دیکھتا ہوں کہ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح پیش آتے ہیں کہ ان کے الفاظوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے ذہنی معیار کا کیا حال ہے ، دنیا بھر کی کسی بھی زبان میں اس کا کلچر سب سے پہلے تمیز کا درس دیتا ہے ،دنیا بھر سے مختلف کلچر کے لوگ ہر روز امریکہ آتے ہیں اور یہاں کی سرزمین اتنی وسیع ہے کہ وہ ہر آنے والے کو دل میں بسا لیتی ہے لیکن دیکھا گیا ہے کہ یہاں پر جتنی بھی کمیونٹیز کے لوگ آتے ہیں وہ اپنے بہترین کلچر کے ساتھ اپنی پہچان پر فخر کرتے ہیں ، اس طرح ہر نیا آنے والا اپنے کلچر کے ساتھ خود بھی اور اپنی نئی نوجوان قیادت کی پرورش کرتا ہے اگرآج ہم اپنے کلچر ، رسم و رواج کی پہچان میں ایک دوسرے کا احترام کھو دیں گے تو ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہماری آنے والی نوجوان قیادت ہم سب سے بہتر ہوگی ، ہو سکتا ہے کہ وہ دنیا وی علم میں ہم سب سے بہتر ہو لیکن اپنے مذہبی و کلچر کے اعتبار سے بدتر ہوگی ، ہم سب کو چاہئے کہ ایک دوسرے کے درد کو محسوس کرتے ہوئے اس میں عزت و احترام پیدا کریں تاکہ ہمیں دیکھ کر ہماری نوجوان قیادت ہم سب، ہمارا کلچر سیکھ سکے ، یاد رہے کہ بچے علم تو سکولوں میں سیکھتے ہیں لیکن تربیت اپنے گھر سے سیکھتے ہیں ، ہم سب رہتے تو اپنے اپنے گھروں میں ہیں لیکن ہمارا دین ہمیں سیکھاتا ہے کہ ہم ایک دوسرے سے اس طرح جڑے ہوئے ہیں کہ اگر ایک بھائی کو کوئی تکلیف ہوتی ہے تو سب کو اس کا درد محسوس ہونا چاہئے بالکل اسی طرح اگر کسی انسان کے جسم کے کسی حصے میں اگر کوئی درد ہوتا ہے تو پورا جسم اس درد کو شدت سے محسوس کرتا ہے ،ہم سب نے امریکہ آکر شدید محنت سے اپنی اولاد کی پرورش کی ہے ، آج ہماری اولاد پڑھ لکھ کر اچھی اچھی ملازمتوں پر فائز ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ ہماری اولاد کے پاس ہمارے لیے وقت نہیں ، وہ وجہ صرف ایک ہے کہ ہم نے انہیں وقت نہیں دیا تھا ، یہ گھر گھر کی کہانی ہے ، آیئے ہم ہفتہ میں کم از کم ایک بار اپنے پورے خاندان کے ساتھ کھانے کی میز پر جمع ہوں ، ایک دوسرے کا حال ، احوال معلوم کریں ، ایک دوسرے کے قریب آنے کا اس سے بہتر کوئی راستہ نہیں ہو سکتا ہے ، اس سے ہم اپنے مذہب ، کلچر اور دُکھ سکھ میں قریب آ سکتے ہیں ۔رشتہ داروں ، دوست ، احباب کو دعوت پر مدعو کر کے بھی ہم اپنے درمیان فاصلوں کو دور کر سکتے ہیں ، ہفتے یا مہینے میں ایک مرتبہ ہمیں ضرور سب کو اکٹھا کرنا چاہئے ۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here