”کمالا کو مسلم کمیونٹی میں برتری”

0
34

”کمالا کو مسلم
کمیونٹی میں برتری”

امریکہ بھر میں اس وقت سیاستی درجہ حرارت عروج پر پہنچ چکا ہے ، انتخابی امیدوار عوام میں اپنی برتری کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں لیکن ایسا پہلی مرتبہ دیکھنے میں آیا ہے کہ ڈیموکریٹس اور ری پبلیکن کے بعد کوئی تیسری جماعت کی امیدوار بھی سیاسی حریفوں کو ٹف ٹائم دے رہی ہے ، گرین پارٹی کی جل سٹین نے ڈیموکریٹس کی صدارتی امیدوار کمالا ہیرس کو کئی محاذوں پر ٹف ٹائم دیا ہے ، مسلم کمیونٹی کے ووٹرز کی حمایت میں بھی کمالا ہیرس کو اپنی گرین پارٹی کی حریف جل سٹین پر بہت معمولی برتری حاصل ہے ، کیئر کے حالیہ سروے کے مطابق ڈیموکریٹس کی کمالا ہیرس کو مسلم ووٹرز کی 29.4فیصد حمایت حاصل ہے جبکہ گرین پارٹی کی جل سٹین کو 29.1فیصد حمایت حاصل ہے، دونوں میں صرف اعشاریہ 3فیصد کا معمولی فرق ہے ، ری پبلیکن کے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ بہت قلیل تعداد میں صرف 5فیصد مسلم ووٹرز کی حمایت حاصل کر سکے ہیں ، سروے کے مطابق 16.5فیصد مسلم ووٹرز نے تاحال اپنی رائے کا اظہار نہیں کیا ہے ۔گزشتہ 30 برس سے مسلم ووٹر سینزل شیفر ڈیموکریٹک پارٹی سے وابستہ ہیں اور تسلسل سے ہر پرائمری، وسط مدتی اور صدارتی الیکشن میں اسی جماعت کے امیدواروں کو ووٹ دیتی آرہے ہیں لیکن رواں سال نومبر میں ہونے والے الیکشن میں وہ ڈیموکریٹک پارٹی سے اپنا یہ دیرینہ تعلق ختم کر تے نظر آ رہے ہیں جہاں ایک جانب مسلم ووٹرز غزہ جنگ کو اہم ترین مسئلہ سمجھتے ہیں وہیں امیدواروں سے متعلق ان کی آرا تقسیم ہیں کیونکہ ایک بڑی تعداد میں یہ ووٹر دونوں بڑی پارٹیوں کے نامزد امیدواروں کے اسرائیل کی حمایت کے موقف سے ناراض ہیں اور تھرڈ پارٹی آپشن کی جانب دیکھ رہے ہیںشاید اسی وجہ سے گرین پارٹی کی صدارتی امیدوار جل سٹین نمایاں طور پر سامنے آ رہی ہیں ، 2020 کے انتخابات میں جیتنے والے صدر بائیڈن کو 65 فیصد مسلم ووٹ ملے تھے۔ رواں برس اس حمایت میں واضح کمی واقع ہوئی کیونکہ سات لاکھ ڈیموکریٹک پرائمری ووٹرز میں سے سوئنگ اسٹیٹس میں زیادہ تر مسلمانوں نے بائیڈن کو ووٹ نہیں دیا۔ایسے ووٹرز کی ایک بڑی تعداد کسی تیسرے امیدوار کے بارے میں سوچ رہی ہے یا ووٹ کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کرسکی ہے۔ایک مسلم ریسرچ گروپ انسٹی ٹیوٹ فور وشل پالیسی اینڈ انڈرسٹینڈنگ(آئی ایس پی یو) نے جولائی میں ایک سروے کرایا تھا جس میں انہیں ‘سوئنگ مسلم ووٹرز’ کانام دیا گیا تھا۔ادارے کے مطابق غزہ تنازع سے متعلق ان ووٹرز کے تحفظات سے ہم آہنگ پالیسیز کے ذریعے ان کی حمایت حاصل کی جاسکتی ہے۔صدارتی انتخاب میں تین ماہ سے بھی کم کا عرصہ باقی ہے اور تا حال یقینی طور پر نہیں کہا جاسکتا کہ ‘سوئنگ مسلم ووٹرز’ کسی کی حمایت کا فیصلہ کریں گے۔فلسطینیوں سے متعلق کملا ہیرس کے موقف کو بائیڈن کے مقابلے میں زیادہ ہمدردانہ تصور کیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ مسلم ووٹرز میں ان کی حمایت صدر بائیڈن سے زیادہ ہے۔کملا ہیرس جنگ بندی اور ہتھیاروں پر پابندی کے بغیر نومبر میں وہ ووٹ حاصل نہیں کر پائیں گی جن کی انھیں ضرورت ہے۔مسلم ووٹرزکے نزدیک اسرائیل سے متعلق ہیرس اور ٹرمپ کا موقف زیادہ مختلف نہیں ہے۔ مسلم کمیونٹی میں مسائل اور ایشوز سے متعلق تنوع پایا جاتا ہے۔ غزہ ان کی اولین ترجیح ہے لیکن ساتھ ہی یہ معیشت، روزگار، امیگریشن اور ماحولیات جیسے ایشوز پر بھی فکر مند ہیں۔ری پبلکن پارٹی کی جانب جھکاو رکھنے والے مسلمان سابق صدر ٹرمپ کے ان دعووں کو تسلیم کرتے ہیں کہ ان کے دور میں دنیا زیادہ پرُ امن اور محفوظ تھی۔ حقائق کی تصدیق کرنے والے اس دعوے کی درستی پر سوال اٹھاتے ہیں،آئی پی یو کے سروے کے مطابق 91 فی صد ‘سوئنگ مسلم ووٹرز’ جنگ بندی کے حامی امیدوار کی حمایت کریں گے لیکن جنگ بندی کے باوجود، کئی ووٹرز ممکنہ طور پر تھرڈ پارٹی امیدواروں کی جانب متوجہ ہوسکتے ہیں یا ممکن ہے کہ الیکشن کے دن گھر ہی بیٹھے رہیں، لیکن مسلم ووٹ بہرحال تقسیم ہے بعض کو یہ خدشہ بھی ہے کہ بے یقینی کی صورت حال 35 لاکھ نفوس پر مشتمل مسلم کمیونٹی کے سیاسی رسوخ کو بھی متاثر کرسکتی ہے۔ہر الیکشن میں مسلم ووٹرز کی تعداد بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ بنتی ہے ، شاید یہی وجہ ہے کہ انتخابی امیدوار وں کی زیادہ توجہ مسلم ووٹرز کی جانب ہے ، لیکن اسرائیل فلسطین جنگ نے مسلم ووٹرز کی توجہ ری پبلیکن اور ڈیموکریٹس سے یکسر تبدیل کر دی ہے ، کیونکہ دونوں جماعتیں ہیں اسرائیل کی حمایتی ہیں جوکہ مسلم ووٹرز کے لیے انتہائی ناگوار معاملہ ہے ۔اس سلسلے میں گرین پارٹی کی صدارتی امیدوار جل سٹین صورتحال سے فائدہ اٹھا سکتی ہیں لیکن اس کا فیصلہ وقت ہی کریگا۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here