پچھلے کئی ہفتوں سے ہیوسٹن شہر میں میں نفرتوں کے نئے بیج بوئے جا رہے ہیں جبکہ اس شہر میں لوگ محبت سے رہتے آ رہے ہیں۔ ہمارے ملک پاکستان کی سیاست کو امریکہ میں نہیں کرنا چاہیے ۔ایک تو مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کی عوام کیا اس قابل نہیں ہے کہ وہ اپنے لئے کوئی ایسا رہبر و رہنما منتخب کر سکے جو ان کے مسائل کو حل کر سکے۔ یہ فیصلہ عوام نے ہی کرنا ہے کہ وہ اس قابل نہیں ہیں یا ان کے منتخب کردہ نمائندے اس کے قابل نہیں ہیں۔
زرداری، نوازشریف اور اب عمران خان بھی اس قابل نظر نہیں آرہے کہ وہ پاکستان کو مشکلات سے نکال سکیں بلکہ وہاں پر بھی سیاست چل رہی ہے ایک دوسرے پر الزامات لگائے جا رہے ہیں۔ پنجاب میں کام بند ہو رہے ہیں، کراچی کو تباہ کیا جا رہا ہے۔ کراچی کا کوئی پرسان حال نہیں ہے دو گھنٹے کی بارش میں پورا شہر بند ہو جاتا ہے اگر خدانخواستہ بارشیں دو تین دن تک جاری رہیں تو پھر کراچی کیا ہوگا؟
کراچی پاکستان کا وہ شہر ہے جو تمام قومیتوں کو روزگار فراہم کرتا ہے۔ وہاں کوئی پنجابی، مہاجر، سندھی، بلوچی نہیں ہیں سب مل جل کر رہتے ہیں۔ مگر ہر قوم میں کچھ مفاد پرست ہوتے ہیں جو صوبائیت کو ہوا دیتے ہیں اور آپس میں نفرتیں اُبھارتے ہیں۔ پاکستان کی حد تک تو یہ معاملہ چلتا ہی رہتا ہے لیکن ہماری بد قسمتی یہی ہے کہ امریکہ جیسے ملک میں بھی وہی ذہنیت پنپتی جا رہی ہے۔ یہاں ہمیں اپنی ایسی ذہنیت کو بدلنا ہوگا۔ ہو سکتا ہے میری ان باتوں سے لوگوں کو تکلیف پہنچے مگر ہم یہاں 20 سال سے رہ رہے ہیں اور ہمارے بچے یہاں کے ماحول میں رچ بس گئے ہیں، ان کو ان باتوں سے کوئی سروکار نہیں ہے کہ کون کیا ہے؟ وہ سب ایک دوسرے سے محبت اور پاکستانی کی حیثیت سے ملتے ہیں اور ان کو پاکستانی سیاست سے کوئی مطلب نہیں ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ اپنے ملک سے محبت نہیں کرتے جب بھی ہمارے ملک پر کوئی بُرا وقت آتا ہے تو سب اس کیلئے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ہم لوگوں نے یہاں سوشل میڈیا پر اپنے اپنے گروپ بنائے ہوئے اور اس پر طرح طرح کے پیغامات بھیجے جاتے ہیں۔ کوئی نوازشریف کے قصیدے پڑھتا ہے کوئی نوازشریف کےخلاف اور کوئی الطاف حسین اور کوئی عمران کے خلاف اور کوئی عمران خان کے حق میں لکھتاہے اور اسی میں بات بڑھ جاتی ہے اور پھر بات قومیت پر آجاتی ہے۔ ہم کبھی بھی پاکستانی بن کر نہیں سوچتے جہاں اپنا مطلب ہوا وہیں جُھک جاتے ہیں۔ ہمارا ہیوسٹن بہت پیارا شہر ہے یہاں سب ایک دوسرے سے پیار کرتے ہیں۔ پنجابی، سندھی، مہاجر، پٹھان، بلوچی، سب ایک دوسرے کی تقاریب میں شرکت کرتے ہیں۔ بزنس کرتے ہیں اگر نفرتیں بڑھائی گئیں تو ہم کہیں کے نہیں رہیں گے۔ ہمیں چاہیے کہ ایسے لوگوں پر نظر رکھیں جو تفرقہ ڈال رہے ہیں ایک دوسرے پر الزامات لگا رہے ہیں طرح طرح کی ویڈیوز ڈال رہے ہیں۔ پرانے زخم کریدنے کی ضرورت نہیں ہے جس نے بھی پاکستان کےخلاف کام کیا اس کا حشر خود عوام نے دیکھ لیا اب ہمیں پاکستانی سیاست کے بجائے امریکہ کی سیاست میں حصہ لینا چاہیے۔ چاہے اس کا تعلق ڈیمو کریٹک پارٹی سے ہو یا ری پبلکن پارٹی سے کیونکہ ہمارا اور ہمارے بچوں کا مستقبل اسی ملک سے وابستہ ہے۔ اس لیے اس کی ترقی میں حصہ لیں۔ اور میری مو¿دبانہ درخواست ہے ان لوگوں سے جو آپس میں ایک دوسرے کےخلاف باتیں کر رہے ہیں کہ وہ صرف اور صرف پاکستانی بن کر سوچیں اپنے اندر سے تعصب کو نکال پھینکیں۔ بعض دفعہ تکلیف تو ہوتی ہے جب کوئی کسی کو اس کی قومیت کے نام سے پکارتا ہے لیکن یہ صرف چند لوگ ہی ہوتے ہیں جو یہ حرکت کرتے ہیں۔ میرے دوستوں میں سب شامل ہیں اور ہمارے فیملی تعلقات بھی۔ کبھی کوئی ایسی تعصبانہ باتیں نہیں ہوتیں اس لیے ہم سب کو درگزر سے کام لینا چاہیے اور ایسی کوئی ویڈیو اور بیان نہیں ڈالنا چاہیے جس سے کسی کے جذبات بھڑکیں۔ اچھی باتیں بھی ڈال سکتے ہیں اور ایسے بندوں کا بائیکاٹ کریں اور ان کی نشاندہی ضرور کریں جو اس سے فائدہ اٹھا کر آپس میں لڑوانے کی سازش کرتے ہیں۔ جیسا کے پچھلے کئی سالوں سے ایسے خط ارسال کئے جا رہے ہیں جس کو کوئی بھی شریف آدمی پڑھ نہیں سکتا اور وہ یہی ظاہر کیا جاتا ہے کہ مہاجروں کےخلاف کہ مہاجر ایسے ہیں اور وہ ظاہر یہی کرتا ہے کہ وہ پنجابی ہے تاکہ نفرتیں پیدا ہوں ایسے لوگوں سے نفرت ضرور کریں ہر جگہ اچھے اور بُرے ہوتے ہیں لیکن آپ خود کو اچھا بنانے کی کوشش کریں۔ یہ سیاسی جماعتیں آپ کو کچھ نہیں دینے والی، سب اپنا اپنا کام کر کے چلی جائینگی اس لئے ہم پاکستانیوں کو چاہیے کہ امریکی سیاست میں اپنا اپنا کردار ادا کریں تاکہ پاکستان کا نام روشن ہو۔
٭٭٭