امریکی انتخابات اور حکمت عملی!!!

0
607
جاوید رانا

قارئین کرام! جس روز ہمارا یہ کالم آپ تک پہنچے گا ذی الحج کی 9 تاریخ ہوگی اور فرزندان توحید یوم العرفہ کی مبارک ساعتوں کا فیض حاصل کر رہے ہونگے، 31جولائی جمعة المبارک کو عید الاضحیٰ ہوگی اور امریکہ بھر میں امت مسلمہ نماز عید کی ادائیگی کے ہمراہ سنت ابراہیمی پر بھی عمل پیرا ہوگی۔ ہماری اور ادارے کی جانب سے تمام قارئین کو عید الاضحیٰ کی دلی مبارکباد اور ڈھیروں دعائیں۔ اللہ رب العزت موجودہ حالات میں سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ آمین۔ کرونا کی اس وبائی صورتحال میں اپنی اور اپنے پیاروں کی حفاظت کیلئے تمام ممکنہ تدابیر بروئے کار لائیں، یہی ہماری درخواست ہے۔
ہمارا ارادہ تو اپنے گزشتہ کالم کے تسلسل میں ریاست کے جعلی مذہبی ٹھیکیداروں کے حوالے سے مزید حقائق سامنے لانے کا اور ان کا اصلی چہرہ سامنے لانے کے شواہد پیش کرنے کا تھا لیکن مبارک موقع کے باعث اس موضوع سے گریز کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ امریکی قارئین کی دلچسپی کے پیش نظر آئندہ نومبر میں ہونےوالے انتخاب کے حوالے سے امریکی انتخاب اور سیاسی رویوں پر اظہار خیال کا فیصلہ کیا۔ امید ہے کہ اس ناطے سے ہم تاریخی اور امریکی حکمت عملی و سوچ آپ تک پہنچا سکیں گے۔ راقم الحروف گزشتہ چالیس برس سے تقریباً 9 انتخابات کاشاہد بھی ہے اور بطور ووٹر و صحافی ان کا حصہ بھی رہا ہے۔
اس حقیقت سے یقیناانکار نہیں کیا جا سکتا کہ سوویت یونین کی شکست و ریخت کے بعد سے امریکہ واحد عالمی قوت کے طور پر دنیا بھر کے تمام سیاسی، معاشی و متقدر معاملات پر حاوی رہا ہے۔ اپنے یہاں جمہوریت کے دعوے اور انتخابات کے تسلسل پر عمل پیرا رہا ہے لیکن اس کےساتھ ہی اپنے اثر و رسوخ اور بالا دستی کو برقرار رکھنے کیلئے دنیا کے دیگر ممالک کو تہہ و بالا کرنے کے منصوبوں پر بھی عمل پیرا رہتا ہے۔ تفصیل میں جانے کی بجائے ہم مختصراً یہ عرض کرینگے کہ اس حوالے سے کویت عراق،عراق ایران جنگوں کے بعد ازاں عراق کی تباہی 9/11 کے تناظر میں افغانستان پر چڑھائی، ایران پر پابندیوں، مصر، لیبیا، شام و یمن کی تباہی وغیرہ امریکہ کی عالمی بالادستی برقرار رکھنے کی واضح مثالیں ہیں۔ اگر ان تمام واقعات کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ یہ تمام واقعات اگرچہ امریکی اسٹیبلشمنٹ کی پالیسیوں کا ما حصل رہے ہیں لیکن یہ سب اقدامات امریکی انتخاب سے کچھ قبل یا فوری بعد رونما ہوئے ہیں اور انتخابات پر اثر انداز ہوئے ہیں۔ امریکی پالیسیوں میں فیصلہ سازی کا اختیار بظاہر تو متفقہ (کانگریس و سینیٹ)کو ہے لیکن اصل میں تمام فیصلے اسٹیبلشمنٹ دوسرے لفظوں میں پینٹاگون کے ہوتے ہیں اور ملک کی دونوں سیاسی جماعتوں میں اس کو کامیابی سے ہمکنار کیا جاتا ہے جو اسٹیبلشمنٹ کے فیصلوں کو آگے بڑھاتے ہیں۔ امریکی قوم کا مزاج برتری کی سوچ سے منضبط بھی ہے۔ اس احساس برتری کو انتخابی جیت کا ہتھیار بنانے کیلئے جہاں دنیا کے دیگر ممالک کےخلاف محاذ آرائی کا کھیل کھیلا جاتا ہے وہیں اندرون ملک قومیت، رنگ و نسل اور مذہب و لسان کی تقسیم کو بھی بنیاد بنایا جاتا ہے۔ گزشتہ انتخابات کی مثال ہی لیں۔ عمومی ووٹوں کی بنیاد پر جیتی ہوئی ڈیمو کریٹ صدارتی امیدوار ہیلری کلنٹن کو پاپولر ووٹ کی بناءپر ہرا کر ڈونلڈ ٹرمپ کو جتوایا دیا گیا۔
سال 2020ءامریکہ میں انتخابات کا سال ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ دوسرے دور کیلئے ریپبلکن کا امیدوار ہے جبکہ ڈیمو کریٹ کا صدارتی امیدوار جوبائیڈن کو نامزد کیا گیا ہے۔ ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے کے بعد سے مسلسل نسل پرستی کے روئیے، امیگرینٹس اور امیگریشن کے معامالات میں منفی نقطہ¿ نظر اور مذہبی تنگ نظری کےساتھ گرگٹ کی طرح رنگ بدلتی لفاظی نے جہاں اقلیتی کمیونٹیز میں ان کی مقبولیت متاثر کی تھی وہیں سال کے آغاز سے ہی کرونا کے حوالے سے اس کے تاخیری فیصلوں نے ملک کو دنیا کا سب سے زیادہ متاثر ملک بنا دیا۔ مزید یہ کہ امریکہ کی معیشت بھی بُری طرح متاثر ہوئی۔ یہ امر ٹرمپ کیلئے مزید غیر مقبولیت کا سبب بنا، نتیجہ یہ کہ موجودہ سروےز کے مطابق جوبائیڈن کو مقابلے میں عوامی برتری نظر آرہی ہے۔ قارئین کو بخوبی علم ہے کہ طاقت کے توازن کے منظر نامے میں عالمی سیاسی صورتحال تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے۔ چین جہاں معاشی طور پر عالمی برتری حاصل کئے ہوئے ہے وہیں بھارت سے اس کی حالیہ کشیدگی نے اس کی حربی برتری کی بھی نشاندہی کر دی ہے۔ بھارت کے سکم میں دخل اندازی اور امریکی مفادات کیلئے سڑک کی تعمیر پر چین نے اس کی جو دُرگت بنائی ہے وہ ساری دنیا دیکھ چکی ہے۔
چین کے بڑھتے ہوئے معاشی فروغ، سی پیک کے منصوبے سے آئندہ کی صورتحال کے پیش نظر امریکی فیصلہ سازوں کو تشویش پہلے سے ہی تھی، البتہ معاملات عالمی سطح پر اتنے واضح نہیں تھے۔ COVID-19 کی آڑ میں ٹرمپ نے چین کو ہدف بنانے کا آغاز کیا اور مسلسل چین کیلئے ہرزہ سرائی و دھمکیوں میں مصروف رہا لیکن اس آگ کو ہوا بھارت وچین کی لڑائی میں امریکہ کے ساﺅتھ چائنہ سمندر میں دو بحری بیڑوں کی جنگی مشقوں کے اقدام نے دی۔ چین کے جوابی اقدام اور امریکہ کو اپنی حدود میں دخل اندازی پر انتباہ نے صورتحال کو اس حد پر پہنچا دیا کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے قونصلیٹ بند کر رہے ہیں۔ مقابل ملک کے ماہرین، اہلکاروں پر پابندیاں لگا رہے ہیں۔ جاسوسی اور سائبر حملوں کی الزام تراشیاں بھی جاری و ساری ہیں۔ عالمی سیاسی منظر نامہ میں چین، روس، ایران، ترکی، پاکستان، شام، ملائیشیا و دیگر ممالک کا اتحاد سامنے ہے تو دوسری جانب امریکہ، اسرائیل، بھارت، جاپان، آسٹریلیا،سعودی عرب، برطانیہ و بعض یورپی ممالک کا گروپ ہے۔ دنیا بھر کا میڈیا امریکہ اور چین کی تنازعاتی صورتحال کو محاذ آرائی یا تیسری عالمی جنگ کا محرک قرار دے رہا ہے۔ ہمارا ایک سوال ہے کہ کیا سرد جنگ کے دور میں کبھی سوویت یونین اور امریکہ کے درمیان جنگ ہوئی۔ 1979ءمیں روس کی شکست پراکسی وار کے باعث ہوئی سچ تو یہ ہے کہ ویت نام سے افغانستان تک امریکہ کبھی فتحیاب نہیں ہو سکا۔
حاصل یہ ہے کہ سارا کھیل اسٹیبلشمنٹ کا رچایا ہوا ہے۔ دونوں عالمی قوتوں کے درمیان جنگ کسی کے فائدے میں نہیں۔ البتہ حالیہ حالات میں جذباتی امریکی قوم کو یہ باور کروانے کی کوشش کی جانی ہے کہ امریکہ کو واحد عالمی قوت برقرار رکھنے کیلئے انہیں اس امیدوار کو ووٹ دینا ہے جسے امریکی اسٹیبلشمنٹ لانا چاہتی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ٹرمپ کی گرتی ہوئی مقبولیت کو سنبھالنے کیلئے یہ پتہ کام آتا ہے یا قرعہ جوبائیڈن کے نام کُھلتا ہے۔ یہی امریکی سیاست ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here