کچھ بھی اچھا نہیں!!!

0
55
جاوید رانا

کبھی کبھی ذہن میں یہ سوچ آتی ہے کہ امریکہ میں رہتے ہوئے اور اس ملک کا شہری ہوتے ہوئے آخر ہم وطن عزیز کے حالات و واقعات اور ان کے سُود و زیاں کے حوالوں سے کیوں فکر و اندیشوں میں مبتلا رہتے ہیں جبکہ ہماری تیسری نسل بھی یہیں پل بڑھ کر امریکی معاشرے کا بھرپور عملی حصہ بن چکی ہے۔ ہمارے بزرگ قیام پاکستان کے وقت مشرقی پنجاب سے ہجرت کر کے فیصل آباد آئے تھے اور انہوں نے بھارتی زیر پنجاب کیلئے کیوں کبھی ایسے جذبات کا اظہار نہیں کیاں تھا جو ہم یہاں رہتے ہوئے پاکستان کے ناطے سے کرتے ہیں۔ اگر یہ جواز بنایا جائے کہ ہماری پاکستان سے محبت و انسیت جائے پیدائش ہونے کے سبب ہے تو ہمارے بزرگوں کو اپنی جائے پیدائش کے ناطے سے بھارت میں ان کی جائے مولود سے انسیت یا فکر کیوں نہ ہوتی تھی۔ اس کی بنیادی وجہ یا واضح فرق وہ دو قومی نظریہ اور لا الہ الا اللہ کا نعرہ تھا جس کے تحت پاکستان معرض وجود میں آیا تھا اور جس کا مقصد ایک روشن، مثالی، خوشحال اور مساویانہ و منصفانہ ریاست کا تسلسل اور عوامی تصریحات پر مبنی مملکت تھا۔ سوال یہ ہے کہ 77 سال میں ہم یہ منزل پا سکے ہیں، جواب نفی میں ہی آتا ہے۔
بانیٔ پاکستان اور برصغیر کے رہنمائوں کی جدوجہد کے نتیجہ میں ملنے والا وطن عزیز آج بھی قائد اعظم کے قول اتحاد، تنظیم اور عقیدہ سے کوسوں دُور ہے اور دھونس، دھاندلی بد نظمی اور عوام کی بہتری و تصریحات کیخلاف راہ پر گامزن نظر آتا ہے۔ انتشار، افتراق اور خود غرضی کا بھوت کسی ایک شعبے، ادارے کے تابع متحرک نہیں بلکہ ہر طرف کار فرما ہے۔ ایک صحافی اور پاکستان سے فطری محبت کے ناطے ہم بارہا اور مسلسل اپنے احساسات کو تحریر میں آزادی سے لاتے رہے ہیں بقول حبیب جالب، لاکھ کہتے رہیں ظلمت کو نہ ظلمت لکھنا، ہم نے سیکھا نہیں پیارے بہ اجازت لکھنا”۔ وطن عزیز کے دن بہ دن بگڑتے ہوئے حالات ہر سطح ان حدوں کو بھی پار کر چکے ہیں جہاں ریاست، حکومت، عدالت، سیاست حتیٰ کہ عوام کی محرومیوں کو دیکھ کر اس دیس کے اندھوں کو اُلٹا نظر آتا ہے، مجنوں نظر آتی ہے، لیلہ نظر آتا ہے، ہم تو وطن عزیز کے حوالے سے عرضداشتیں کرتے کرتے تھک چکے لیکن میرے وطن کے ذمہ دار، سیاسی و ریاستی، حکومتی و عدالتی یہاں تک کہ ہر شعبہ اس بات پر تُلا بیٹھا ہے کہ ملک و عوام کو کسی بھی طرح آزادی و سکون کا سانس نہ لینے دیا جائے۔ ہم اپنے فریضہ کو نبھاتے ہوئے اپنی گذارشات، معروضات اور احساسات کو ضابطہ تحریر میں لاتے رہتے ہیں لیکن اب یہ لگتا ہے کہ کچھ بھی ٹھیک ہونیوالا نہیں اور نہ وطن کے اسٹیک ہولڈرز کسی درستگی پر آمادہ نظر آتے ہیں۔ مقتدرہ اپنی اتھارٹی برقرار رکھنے اور کسی بھی طرح سیاسی، جمہوری و آئینی اقدار کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں۔ 9 مئی کے حوالے سے ڈی جی آئی ایس پی آر کی میڈیا کانفرنس اور آرمی چیف کے فرمودات ،در جواب آں غزل پی ٹی آئی کے جوابی اعلانات، بعد ازاں پارلیمان میں عمر ایوب کا خلائی مخلوق کا بیان اور خواجہ آصف کا گڑے مردے اکھاڑنے کا مؤقف گالی گلوچ و ماردھاڑ تک پہنچنا کوئی نیک شگون نہیں رہا اور اس امر کا غماز نظر آتا ہے کہ موجودہ سیاست وطن کیلئے موافق نہیں، 77 اراکین پارلیمنٹ کی معطلی موجودہ اتحادی حکومت کیلئے خطرے کی گھنٹی بنی ہے۔ دوسری طرف آئی ایم ایف نے امداد کے حوالے سے پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کی نشاندہی کرتے ہوئے نہ صرف اپنے تحفظات کا اظہار کر دیا ہے بلکہ انکم ٹیکس و دیگر محصولات، سبسڈیز کے خاتمے وغیرہ کی کڑی شرائط لگا کر کھٹیا کھڑی کر دی ہے اور عوام کے جینے کو مزید اجیرن کر دیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ فارم 47 اور مقتدروں کے سہارے سے حکومت بن تو گئی ہے لیکن اس کے تسلسل کو اسٹیبلشمنٹ کا سہارا کب تک قائم رکھ سکے گا؟ اس وقت حالات جس ابتری کا شکار ہیں اس کے اثرات پاکستان میں احتجاج، ریلیوں اور مظاہروں کی صورت میں انتشار و افتراق کی صورت میں جعلی حکومت اور اس کی بیساکھیوں کی ناکامی کا ثبوت ہیں ہی، آزاد کشمیر میں گزشتہ دنوں عوام کے آٹے پر سبسڈی اور بجلی کے ٹیرف میں کمی کے مطالبے پر جو قیامت برپا ہوئی اور عوام، پولیس اور رینجرز کے درمیان جنگ و جدل کی کیفیت رہی اس سے بھارت میں مودی کی انتخابی مہم آزاد کشمیر کے عوام کو انڈین عوام قرار دے کر ہرزہ سرائی اور آزاد کشمیر میں مظاہرین کے پاکستان سے الحاق ختم کرنے نیز آزادی کے نعروں و مطالبات کو کسی بھی طرح پاکستان کے حق میں قرار نہیں دیا جا سکتا بلکہ قائد اعظم کے فرمان ”کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے” کی توہین ہی کہا جا سکتا ہے۔ آزاد کشمیر میں جو کچھ ہو رہا ہے اسے افسوسناک یقیناً کہا جا سکتا ہے لیکن سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ کشمیر کی موجودہ حکومت کی طرف سے دھواں اُٹھنے سے پہلے ہی، آگ پر پانی کیوں نہ ڈالا گیا۔
ہم بارہا اس حقیقت کا اظہار کر چکے ہیں کہ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد سے ہی جمہوریت کو بوٹوں سے داغدار کر دیا گیا تھا لیکن جمہوریت و عوام پر شب خون کی انتہاء 77ء سے چلی ہے تو آج اس انتہاء پر پہنچ چکی ہے جس کے نتیجے میں حاکم بدین پاکستان کے وجود کو خطرات درپیش ہو گئے ہیں منتخب حکومتوں اور رہنمائی کی تحلیل اور معزولی کی فہرست بہت طویل ہے لیکن گزشتہ دوں برسوں سے رجیم چینج اورعوام کی مقبول ترین جماعت، قائد و رہنمائوں نیز عوام پر جبر و استبداد، سزائوں اور معاشرتی و معاشی استحصال کا بازار گرم ہے اس کے اثرات وطن و قوم بلکہ خود مقتدرین کیلئے کبھی بھی مثبت نہیں ہو سکتے ہیں۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے مفاہمت و اعتدال کی راہ اختیار کی جائے ورنہ 1971ء کی صورتحال کے دہرائے جانے کے (خدانخواستہ) حالات سے دوچار ہونے کے احتمال کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ فی الحال تو کچھ اچھا نہیں تاہم ہماری مقتدرہ، عدلیہ، سیاسی اشرافیہ اور تمام ریاستی، آئینی و دیگر اداروں و ذمہ داروں سے یہی التماس ہے،
بے نور ہو چکی ہے بہت دیس کی فضائ
تاریک راستوں میں کہیں کھو نہ جائیں ہم
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here