ظلم کی انتہائ،کامیابی کی نوید ہے!!!

0
134
جاوید رانا

وطن عزیز میں جو حالات جو سیاسی منظر نامہ ہے وہ ہمیں اس سوچ کا شکار کر رہا ہے کہ ملک واپس ماضی کے اس تواتر کی طرف جا رہا ہے جو غیر جمہوری طاقتوں کے زیر اثر دس دس برس پر محیط رہا اور جمہوریت کے غیر عوامی نمائندوں کو کٹھ پتلیوں کی طرح سامنے رکھ کر اصل کردار ڈور ہلانے والے انجام دیتے رہے۔ ہمارے اس اندیشے کو ہو سکتا ہے بعض قارئین محض خام خیالی ہے سمجھیں لیکن جس طرح کے ظلم و ستم، غیر آئینی اور جمہوریت و جمہور مخالف ہتھکنڈے اور اقدامات آزمائے جا رہے ہیں ان سے آگاہی قارئین کو بھی ہے جس طرح سے 9 مئی کو بنیاد بنا کر عمران اور تحریک انصاف کو کُچلنے اور سیاسی منظر نامے سے ہٹانے کی سازشیں کی جا رہی ہیں فسطائیت کی اس تثلیے کیخلاف عدالت عظمیٰ ڈٹ کر کھڑی رہی لیکن ریویو ایکٹ 2023ء کے صدر عارف علوی کے بہ مجبوری یا بہ رضا دستخط کے بعد 184 میں از خود نوٹس اور اپیل کے حوالے سے عدالت عظمیٰ بلکہ چیف جسٹس کے پر کاٹنے کی بھونڈی حرکت محض اس لئے کی گئی ہے کہ نوازشریف،جہانگیر ترین اور فیصل واوڈا کا نا اہلیت سے پیچھا چھڑایا جا سکتا ہو جبکہ دوسری جانب عمران کو کسی بھی طرح نا اہل کر کے اسے سیاسی ایرینا سے باہر کر دیا جائے اور سپریم کورٹ اس حوالے سے بالخصوص موجودہ چیف جسٹس اپنا آئینی و قانونی فریضہ ادا کرنے سے قاصر رہیں کہ اس وقت یہی ریاستی ستون آئین و قانون کی بالادستی اور ریاستی جبر کیخلاف آہنی چٹان بنا ہوا ہے ۔ جبکہ باقی ستون فاشزم و جمہوریت مخالف اقدامات سے اس راہ کو ہموار کر رہے ہیں۔ جس کا اشارہ ہم اپنی بالائی سطور میں کر چکے ہیں، ہمیں ان حالات پر غالب کا شعر یاد آرہا ہے!
ظلمت کدے میں میرے شبِ غم کا جوش ہے
اک شمع (عدلیہ) رہ گئی ہے سو وہ بھی خموش ہے
سوال یہ ہے کہ کیا عدلیہ اس قانون کے حوالے سے اپنے کردار و اختیار کو تسلیم کرلے گی۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا نوازشریف و جہانگیر ترین جن کی اپیلیں پہلے ہی مسترد کر دی گئی ہیں، ہمارا تجزیہ تو یہ ہے کہ خاص مقصد کے تحت حکومت کے اس قانون کا اطلاق ان دونوں پر نہیں ہوگا، خود حکومتی وزیر قانون نے بھی اسی مؤقف کا اظہار کیا ہے، کسی عاشق عمران کا یہ جملہ ہمیں بہت اچھا لگا کہ پہلے لوگ اپنے مقدموں، سزائوں سے چھٹکارا وکیلوں اور عدالتوں سے پاتے تھے اب عمران و پی ٹی آئی سے علیحدگی کا اعلان کر کے پریس کانفرنسوں سے رہائی پاتے ہیں۔ بات بہت واضح ہے کہ اب سزائوں سے بچنے اور رہائی کا پروانہ لینے کا راستہ عدالتوں کے نہیں ان کے پاس ہے جو اقتدار و اختیار کے بلا شرکت غیرے مالک ہیں اور موجودہ حکومتی ٹولہ با اختیار ہو کر بھی بے اختیار نظر آتا ہے۔ حکومتی ٹولے (پی ڈی ایم) کی بے اختیاری کا مظہر تو یہ حقیقت بھی ہے کہ عمران کو چھوڑ کر جانے والے ہجرتی پرندے اب ن لیگ، جے یو آئی میں پناہ لینے کی جگہ ق لیگ اور ترین کی مجوزہ جناح لیگ یا عوامی تحریک انصاف میں آشیانہ بنائیں گے۔ یہ اس امر کی نشاندہی ہے کہ مقتدروں کیلئے اب حکومتی ٹولہ بے معنی ہو چکا ہے۔ اس حوالے سے شریفوں اور مولانا کو اپنا مستقبل دھندلا نظر آرہا ہے۔ مولانا کے بیرونی ملک جانے اور مریم کی جلسی میں شرکاء کی تعداد سے ہمارے اندازے کو تقویت ملتی ہے ویسے بھی گاڑی پرانی ہو جائے تو ڈرائیور اس کے پرزے اور دیگر سامان کی مرمت کرنے کے بجائے نئی گاڑی کو ترجیح دیتا ہے اور وطن عزیز کا اسٹیئرنگ کس کے ہاتھ میں ہے یہ سب جانتے ہیں۔ اس وقت اس حکومتی ٹولے (ن لیگ) کی اس مشہور شعر کی عملی حالت واضح نظر آتی ہے ”ان عقل کے اندھوں کو اُلٹا نظر آتا ہے۔ مجنوں نظر آتی ہے لیلیٰ نظر آتا ہے”۔ اپنی مستقبل کی سیاست کے خاتمہ اور عوامی حمایت سے محرومی کے ساتھ فیصلہ سازوں کے ق لیگ و نئی جماعت کے خوف سے ن لیگیوں کی بدحواسی متذکرہ شعر کا حقیقی منظر نظر آرہا ہے۔ ریویو ایکٹ، پارلیمان میں عمران کیخلاف زیر اُگلنے، اوورسیز پاکستانیوں کی جانب سے عمران کی بھرپور حمایت و سپورٹ پر پی ٹی آئی کے نور عالم کی ان کے پاسپورٹ و شناختی کارڈ کا کینسل کرنے کی ڈیمانڈ اور عمران کو اس بات پر وارنٹ کا اجراء کہ اس نے زمان پارک میں کرسیاں وغیرہ بغیر اجازت لگائی جیسی حرکات کیساتھ سب سے بڑی بدحواسی وزیراداخلہ کی رات بارہ بجے پریس کانفرنس کر کے اس بات کا انکشاف کرنا کہ پی ٹی آئی نے اپنے لوگوں کو جمع کر کے پولیس و دیگر اداروں سے مقابلہ کی آڑ میں عمران پر حملے اور سوچے سمجھے ریپ ایکٹ کا تماشہ کرنے کا منصوبہ بنایا ہے اور ایجنسیوں کی رپورٹ پر ہم نے اس کا سد باب کر دیا ہے۔ رانا ثناء اللہ کی پریس بریفنگ نے ان خدشات و حقائق کو یقین میں تبدیل کر دیا جو عوام کے ذہنوں میں چہ میگوئیوں کی صورت میں موجود تھے بلکہ عمران تک کے اس حوالے سے شبہات تھے۔ پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ اور پولیس حکام نے وضاحتی بیانات کے باوجود خدیجہ شاہ اور دیگر پی ٹی آئی خواتین کیساتھ پولیس کی زیادتیوں، آبروریزی و مظالم حتیٰ کہ سڑک پر برہنہ کر کے گھسیٹنے کے غیر انسانی، غیر اخلاقی، چادر و چار دیواری کی تحقیر کیساتھ ظلم کرنے کی سچائیاں سامنے آچکی ہیں۔ ظلم و جبر کا یہ سلسلہ محض پی ٹی آئی کے لوگوں کیساتھ ہی نہیں ہمدردوں اور سچ دکھانے اور بولنے والے میڈیا پر بھی جاری ہے۔ ارشد شریف کی شہادت سے لے کر جو ظلم، جبر اور غائب و گرفتاری کا میڈیا کے خلاف ہوا یہ اس سلسلے کے تازہ ترین شکار عمران ریاض اور سمیع ابراہیم کا عدالتی احکامات اور میڈیا احتجاج کے باوجود کچھ پتہ نہیں چل رہا ہے۔ ظلم کے سلسلے خواہ کتنے بھی دراز کیوں نہ ہو جائیں حق اور سچائی، عوام کی آزادی کی جدوجہد ختم نہیں ہو سکتی۔ عمران ایک حقیقت ہے اور پاکستانیوں خے دلوں میں بسا ہوا ہے۔ اس کو گرفتار کر لیا جائے،قید کر دیا جائے، نا اہل کر دیا جائے، اس کے باوجود عمران کو شکست نہیں دی جا سکتی، وفاق سے یونین کونسل کی سطح تک عوام کا ووٹ عمران کا ہے، اسے کسی الیکٹیبل کی ضرورت نہیں ہے۔ فواد چوہدری جیسے ہجرتی پرندوں کا چلا جانا نہ صرف عمران خان کی مقبولیت میں اضافے کا سبب بلکہ پارٹی کی تطہیر کا بھی مؤجب ہے۔ وقتی پریشانی اور مخالفین کی شیطنیت کے باوجود فیض کے بقول !
دل نا امید تو نہیں ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے
اور یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ظلم کی انتہائ، مظلوموں کے جذبۂ حریت کی جدوجہد و عزم سے مزید سوا ہو کر کامیابی کا سورج لاتی ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here