کامل احمر
24جولائی2020جمعہ کا دن اسلامی دنیا کے لئے ترکی کے صدر طیب اردگان کی طرف سے نہ صرف ترکی بلکہ پوری دنیا کے لئے(مشرق اور مغرب) ایک پیغام بن کر آیا۔مسلمانوں کے لئے تو بس یہ خوشی کی بات تھی کہ86سال بعد ایک جی دار اور باضمیر حکمران نے تاریخ بنا دی لیکن ترکی کے باہر مسلمانوں کے لئے کوئی للکار نہیں اور نہ ہی کوئی سبق ہے کہ وہ اپنی روش پر ہی چلتے رہیں گے۔پاکستان کے عوام اس کی مثال ہیں جہاں کونے کونے میں اللہ اور رسول کا نام لینے والے ہیں لیکن وہ آپس میں کئی طرح سے گتھم گتھا ہیں۔زبان، مسالک، شیاءسنی وہ نہ تو ایک قوم بنے اور نہ ہی اسکے مقابلے میں ترکی میں ہم نے دیکھا جگہ جگہ مساجد چھوٹی بڑی اور ان کے مینار دعوت دیتے نظر آتے ہیں ،استنبول سے باسفورس کے دوسری جانب ایشیاءکی طرف لائن سے ذرا فاصلے پر مساجد کے مینار دکھائی دیتے ہیں اور خوبصورت نظارہ دیکھنے کو ملتا ہے۔
یورپین سائڈ پر استنبول ہے جو بائزنٹائن دور میں قسطنطنیہ (CONSTANTINOPLE)رومن کا دارالخلافہ تھا، مسلمانوں کی اور عیسائیوں کی نظریں اس پر رہتی تھیں بالآخر مئی1983میں حکومت عثمانیہ کے بانی عثمان نے بائزنٹانیوں کو مار بھگایا۔یہ دن2اپریل1983تھا جب ترکی کے اس عظیم الشان شہر پر ان کا جھنڈا لہرایا گیااور اسکے بعد 200سال حکومت کرنے کے بعد برطانیہ نے دوسرے ملکوں کی مدد سے حکومت عثمانیہ کو ختم کردیا۔1944میں مغرب کی نگرانی میں فوجی کمال اتا ترک ترکی کا حکمران بنا اور ترکی ایک خود مختار ریاست کے طور پر جانا جانے لگاجس نے بائزن ٹائن کے دور کی1483سالہ چرچ(کیتھیڈرال) کو میوزیم بنا دیا جس کا نام ترکی میں آیا صوفیہ اور یونانی میں حاجیہ صوفیہ ہے۔اسے رومن ایمپائر جسٹنین نے بنوایا تھا جس کا مطلبHOLY WISDOM(پاکیزہ شعور) ہے۔537عیسوی میں تعمیر کی گئی یہ بڑی چرچ جو حکومت عثمانیہ نے مسجد میں تبدیل کی تھی کمال اتا ترک نے میوزیم قرار دے دیاجس نے دنیا بھر کے سیاحوں کو اپنی طرف کھینچااور آج یہ آیاصوفیہ نامی چرچ، میوزیم سے تیسری بار تبدیل کرکے مسجد بن چکا ہے۔24جولائی ترکوں کے لئے ایک یادگار دن رہے گا ایسا کرنے سے طیب اردگان نے مغرب کی مخالفت بھی مول لے لی ہے۔امریکہ کے وزیر خارجہ (STATE SECRETARY) نے طیب اردگان پر زور دیا تھا کہ اسے میوزیم رہنے دیا جائے ،اردگان نے جواب میں کہا ایسا بیان ہمارے اندرونی معاملات میں دخل اندازی ہے۔پہلا خطبہ حکومت عثمانیہ کے سلطان محمد نے دیا تھا جب اسے مسجد میں تبدیل کیا گیا تھا اور اب دوبارہ جب اسے میوزیم سے مسجد میں تبدیل کیا گیا تو پہلے اردگان نے پہلی صف میں کھڑے ہوکر آگاہ کیا اور روائتی انداز میں پیش امام نے تلوار قریب کھڑی کرکے خطبہ دیا۔اردگان کا یہ قدم ترکی کے مسلمانوں کو دوبارہ اسلام سے جوڑے گا کہ سنت اور قرآن کی پابندی کرو۔یہ ہم اس لئے لکھ رہے ہیں کہ5سال پہلے جب ہم استنبول میں تھے تو آیا صوفیہ سے چند قدم کے فاصلے پر سلطان احمد مسجد جس کے پانچ مینار ہیں۔
اسے بلو مسجد بھی کہتے ہیں میں نماز پڑھنے گئے تو وہ خالی خالی تھی اور دوسری مساجد کی طرح لیکن وہاں کے لوگ نہایت مہذب اور خوش اخلاق تھے ،سادگی پسند اور اپنائیت سے بات کرتے تھے۔انکے کھانے میں سادہ نغمے زیادہ تر گرل پر تیار بغیر مرچ مصالحے کے تکے بوٹی اور مٹر کا سوپ ہر ریستوران میں تھا۔ سوڈے کی جگہ دہی کی نمکین لسی تھیں، آیاصوفیہ سے اور آگے ٹوپ کاپی(TOP KOPI)میوزیم ہے جہاں حکومت عثمانیہ کے دور کی تلواریں ،زرا بکتر، خنجر ،باورچی خانے میں کھانے پکانے کے برتن اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضور ملعم کی اشیاءمبارک، لباس اور تلوار ہے۔
ترکی واحد شہر ہے جو دو براعظموں پر پھیلا ہوا ہے استنبول یورپین سائڈ پر ہے تو انقرہ(دارالخلافہ)ایشیائی حدود میں ہے۔فیری، زمین دوز ٹرین اور پلوں کے ذریعہ ترکی کے دونوں بازﺅں کو جوڑ دیا گیا ہے۔طیب اردگان مسلمانوں کو جگانے کی بے حد کوشش کر رہے ہیںلیکن عرب اپنی روایت پر قائم ترکوں سے دور ہیں یہ عرب ہی تھے جو حکومت عثمانیہ کا زوال بنے تھے، فلم لارنس آف عربیا انہی حقائق پر مبنی ہے۔
ہم اپنی رائے میں اسے ایک سیاسی قدم کہےں گے اور مغرب بالخصوص اسرائیل کی فلسطینیوں اور شام، لبنان اور اردن کو قابو کرنے کی جارحانہ حرکت کا بھی جواب ہے۔اگر فلسطین، اسرائیل کا داخلی معاملہ ہے اور یروشلم پر قبضہ اسی کے تحت ہے تو پھر اردگان کے اس قدم پر کون کہہ سکتا ہے کہ یہ غلط ہے ورنہ آیا صوفیہ سے سیاحوں کی آمد سے ہونے والی آمدنی کو ترکی ترک نہ کرتالیکن اردگان نے ثابت کیا ہے کہ وہ ایک سچا مسلمان ہے مسلمانوں پر جہاں جہاں مغرب اپنے حاجیوں سے ظلم کروا رہا ہے اور خاموش ہے اردگان نے انہیں شعور دینے کی کوشش کی ہے جس کے دروازے انکے لئے بند کر دیئے گئے ہیں۔سیاسی شعور کا فقدان انکی سیاست کی وجہ سے ہے۔
طیب اردگان نے کہا تھا اگر ہم استنبول کھوتے ہیں تو ہم ترکی کھوتے ہیں بالاخر وہاں کے بڑے کورٹ نے فیصلہ دے دیا کہ اس میوزیم کو مسجد بنایا جاسکتا ہے ہر چند کہUNOکے ادارے یونیسیف نے بھی اپنی ناراضگی کا اظہار کیا ہے جس کے تحت یہ عظیم الشان عمارت جس کے اندر بہت پہلے بی بی مریم کے ساتھ حضرت عیٰسی علیہ السلام کی پیدائش کے وقت کی پینٹنگ ہے اور ساتھ ہی دائیں بائیں اللہ اور محمد اور چاروں خلفاحضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان اور حضرت علی کے نام بھی ہرے رنگ کے گول دائرے میں سنہری حروف سے خطاطی کا نمونہ ہیں۔84سال کے بعد اس کا مسجد میں تبدیل ہونا ایک بڑا تاریخی قدم بھی ہے ،افسوس کہ اب یونیسیف کے ورثہ بھی شاید شامل نہ ہوسکے ،اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔