مجیب ایس لودھی، نیویارک
کسی بھی ملک کا سربراہ اس کے عوام ، تہذیب و تمدن کا چہرہ سمجھا جاتا ہے جس میں پوری قوم اور اس کی ثقافت کی جھلک نظر آتی ہے ، دنیا میں امریکہ کو سپر پاور کے طور پر جانا جاتا ہے اور اس کا حاکم (صدر) بھی دنیا کا سب سے طاقتور شخص تصور ہوتا ہے ، امریکی تاریخ میں بہت سے صدور گزرے لیکن ٹرمپ نے عالمی سطح پر سفارتی آداب ، مہذب گفتگو ، شائستکی ، دھیمے لہجے میں سوالات کے جوابات دینے کی روایات کا جو جنازہ نکالا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے ، ٹرمپ امریکہ کی تاریخ کے وہ واحد صدر ہیں جنھوں نے صدارت کا عہدہ سنبھالتے ہی نسل پرستی کو ہوا دی ، تمام قومیتیوں کے لیے ہر دلعزیز ملک میں مذہبی منافرت کو پھیلاتے ہوئے اسلام کو انسانیت کا دشمن قرار دیا جبکہ ہسپانوی عوام کو کھلے عام امریکیوں کا دشمن قرار دے کر ملک بدرکرنے کا نعرہ لگایا ، کورونا کے پھیلاﺅ کو روکنے میں ٹرمپ کی ناقص حکمت عملی نے لاکھوں امریکیوں کو منوں مٹی تلے دبا دیا ہے۔ٹرمپ امریکہ کی تاریخ میں وہ واحد صدر ہیں جنھوں نے ملک میں خانہ جنگی کے خطرے کو کم کرنے کی بجائے جلتی پر تیل چھرکنے کے مصداق ایسے جملے کسے کہ سیاہ فام افراد کے احتجاج میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ، بات صرف عوام تک ہی ختم نہیں ہوتی بلکہ موصوف کو اپنے قریبی ساتھیوں پر بھی اعتماد نہیں ہے جس کی مثال ان کے مشیروں کی ایک کے بعد ایک برطرفی سے باخوبی حاصل کی جا سکتی ہے ، ایسا صدر عوام کی ترجمانی کیسے کر سکتا ہے جوکہ صبح کو ایک بات کہے اور شام کو اپنی ہی بات کی مخالفت کرتے ہوئے موقف اپنائے کہ میں نے تو یہ بات کہی ہی نہیں تھی ، ٹرمپ وہ واحد صدر ہیں جنھوں نے قیام امن کی بجائے ہمیشہ جنگ و لاٹھی سے معاملات کو درست کرنے کی کوشش کی ہے جس سے امریکہ کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا ہے ۔
ٹرمپ نے چین سے جان بوجھ کر تجارتی جنگ شروع کر رکھی ہے جس سے امریکی تاجروں کو کروڑوں ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے صرف ایک شخص کی اکڑ اور جارحانہ سوچ کی وجہ سے پوری قوم کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے ، دوسری طرف ایران اور شمالی کوریا کے ساتھ ٹرمپ کی مڈ بھیڑ بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے ، ٹرمپ وہ واحد صدر ہیں جنھوں نے ایران کے معاملے پر اپنی ہی سب سے اعلیٰ سیکیورٹی ایجنسی سی آئی اے کو بہت سادہ قرار دے دیا اور کہا کہ میں ایران کے متعلق سی آئی اے سے زیادہ جانتا ہوں یعنی ہر بات اور معاملے میں خود کو فوقیت اور ترجیح دینا یعنی وہ خود پسندی کا شکار تنگ سوچ کے مالک ہیں ۔ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک صدر جو مذہبی منافرت کی بات کرے اور خود ایک دن بھی چرچ عبادت کے لیے نا گیا ہو اور پھر عوام میں سارا معاملہ آنے کے بعد کسی بھی چرچ کے سامنے ہاتھوں میں مقدس بائبل اٹھائے کھڑا ہو کر عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکے۔ٹرمپ کی متنازعہ شخصیت کے متعلق صرف ان کے ناقدین ہی قصیدہ گوئی نہیں کرتے ہیں بلکہ ان کے قریبی ساتھیوں نے پوری پوری کتاب ان کی متنازعہ اور تنگ سوچ پر شائع کر دی ہے جسے پڑھ کر لوگ ورطہ حیرت میں گم ہو گئے ہیں کہ ہم نے کس شخص کو اپنا حکمران منتخب کر لیا ہے ، یعنی ہر بات I Know سے شروع ہوتی ہے اور I Know پر ہی ختم ہوتی ہے ، ٹرمپ نے اقتدار سنبھالنے کے بعد آواز بلند کی کہ امریکہ کسی ملک کی لڑائی کیوں لڑے ، موصوف نے یہ نعرہ لگاتے ہوئے افغانستان سمیت کئی ممالک سے امریکی افواج کے انخلا کا حکم دیا لیکن جب فوج نے ٹرمپ کی افغانستان کے معاملے پر آنکھیں کھولیں تو انہیں احساس ہوا کہ یہ معاملہ بہت سنگین ہے ۔
ٹرمپ کی ہدایت پر طالبان ، افغان قیادت اور امریکی حکام نے مل کر طویل مذاکرات کیے اور ٹرمپ نے بھی ان کی تائید کی لیکن عین اس وقت جب ان مذاکرات کے سلسلے میں ہونے والے معاہدے کا اعلان ہونے والا تھا تو ٹرمپ نے اس معاہدے کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا جس سے پوری دنیا میں امریکہ کی جگ ہنسائی ہوئی اور آج بھی امریکی افواج طالبان کے رحم و کرم پر افغانستان میں مجبوری میں خدمات انجام دے رہی ہے یعنی سنجیدگی صدر ٹرمپ کے پاس سے بھی ہو کر نہیں گزری ہے ۔
میڈیا کی بات کی جائے تو امریکی میڈیا کو جعلی قرار دینے کا سہرا بھی ٹرمپ کے سر جاتا ہے ،اس سے قبل امریکی میڈیا سے شائع ہونے والی ہر خبر کو عالمی سطح پر قدر کی نگاہ سے دیکھا جا تا تھا لیکن ٹرمپ کے آنے کے بعد سی این این سے لے کر فوکس نیوز اور پھر دیگر چینلز سب کی واٹ لگ گئی ہے ، ٹرمپ نے ایک ایک کر کے تمام میڈیا اور صحافیوں کو جعلی قرار دے دیا ہے اور عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ صرف ان کی باتوں پر یقین رکھیں ، اب ان حالات میں کیا ہمیں دوسری مرتبہ بھی صدر ٹرمپ کو ہی منتخب کرنا ہوگا ؟سوچیں ،فیصلے کا وقت آن پہنچا ہے ۔
٭٭٭