شبیر گُل
قارئین ! آپکو یاد ہوگا کچھ عرصہ قبل دو سو سے زائد لوگ آئل ٹینکر الٹنے اور تیل میں آگ بھڑکنے سے جل کر خاک ہوگئے۔یہ ا±سی جگہ کا قصہ ہے جہاں کچھ ماہ پہلے ایک مجذوب بچے پر قرآن کی بے حرمتی کا جھوٹا الزام لگا کر زندہ جلا دیا گیا تھا۔بچے کی ماں کی آہ و بکا بھی ا±سے ظالموں کی درندگی سے نہ بچا سکی۔ مولوی کے ایماءپر گاو¿ں کے ہجوم نے ظلم کی ایک عجیب داستان لکھی جسے بیان کرتے روح کانپ ا±ٹھتی ہے۔ مسجد کے ساتھ والے گھر کو مولوی صاحب مسجد کے لئے خریدنا چاہتے تھے۔ عورت گھر بیچنا نہیں چاہتی تھی۔ عورت کا بچہ اسی مسجد میں پڑھتا تھا ایک روز اس بچے سے سپارے کا صفحہ پھٹ گیا۔مولوی صاحب کو مکان نہ ملنے کا غصہ تھا۔انکے غیض و غضب نیچے کی جان لے گیا۔لوڈ اسپیکر سے مولوی صاحب نے اعلان کیا کہ بچے نے قرآن کی توہین کی ہے، بس عاشقان قرآن آو¿ دیکھا نہ تاو¿ بچے کو مارنے کے لئے اسکے پیچھے کھیتوں میں بھاگتے رہے۔ بچہ تھک ہار کر مشتعل گروہ کے ہتھے چڑھ گیا۔ جنہوں نے پٹرول چھڑک کر آگ لگا دی۔ ماں کا معصوم جگر گوشہ تڑپ تڑپ کر ا±س کے سامنے جل کر مر گیا۔ مکافات عمل دیکھیے۔ بچے جو آگ لگانے والے مقام پر ایک آئل ٹینکر الٹ گیا۔ جس سے ہزاروں گیلن تیل بہہ گیا۔ اسی مسجد سے مولوی نے اعلان کیا کہ ٹینکر سے تیل گر گیا ہے۔ لوگ بالٹیاں برتن لیکر وہاں پہنچ گئے۔ گرنے والے تیل میں کسی طرح آگ بھڑک اٹھی۔ اللہ کے قہر اور غضب میں گاو¿ں کے دو سو افراد ،عین اسی مقام پر تیل کے آگ بھڑکنے سے جل کر خاک بن گئے۔جہاں بچے کے ساتھ ظلم کی داستان رقم ہوئی تھی۔جب آپ ظلم کو نہیں روکیں تو ایک دن اسی ظلم کی چکی میں پس سکتے ہیں۔مکافات عمل کی یہ عجیب داستاں ہے، معصوم بچے پر ظلم سے اللہ نےسینکڑوں لوگوں کو نشان عبرت بنا ڈالا۔ہمیں اپنے منفی کردار کے مکافات عمل سے ڈرنا چاہئے جس کا شکار ہم ہوسکتے ہیں ۔معصوم لوگ کورٹ کچہری میں ساری ساری زندگی ر±ل جاتے ہیں۔ ا±نکا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا، عدالتیں دوکان کی طرح ظالم مجرموں کے آگے بک جاتی ہیں۔ پاکستان کی ہرعدالت میں انصاف بک رہا ہے۔ جج طوائف الملوکی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔
انصاف کے ان ٹھیکیداروں نےلوگوں کا سکون چھین لیا ہے جس معاشرے میں انصاف نیلام ہو وہاں سے خیروبرکت ا±ٹھ جاتا ہے۔ دہشت گردی پروان چڑھتی ہے۔ ہم بے انصافی کا رونا بھی روتے ہیں۔ لیکن زمام کار انہی مجرموں کے ہاتھ میں دیتے ہیں۔ ۔ہمیں اپنی رویوں میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ گزشتہ ہفتے نئے شادی شدہ جوڑے کے جھگڑے میں ثالثی کاموقع ملا۔ لڑکے کی ماں طلاق چاہتی تھی بچی والے بھی مجبوراً یہی مطالبہ کر چکے تھے الحمد للّٰہ بفضلہ تعالی دونوں خاندانوں کو جوڑنے میں اللہ نے میری مدد فرمائی۔قارئین محترم ! عورت ماں ہے،بہن ھے،بیٹی ہے، بیوی ہے۔ بیٹی آپ کی انا ہے۔ بیوی آپ کا وقار ہے۔ یہ چاروں رشتے گاڑی کے وہ پہئیے ہیں۔ جو زندگی کی گاڑی چلانے میں آپکے ممدون و معاون ہوا کرتے ہیں۔ ۔اللہ نے گھر میں آپکو مرد پیدا کیا ہے۔ گھر کے ہر رشتہ میں اعتدال رکھنا ہے۔ ماں کا مقام اور احترام۔ بہن کی عزت و آبرو۔بیٹی کے ناز نخرے اورانا۔بیوی کا وقار اور بھروسہ برقرار رکھنا حقیقی مرد کی علامت ہے۔
ان تمام رشتوں کو سلیقے اور قرینے سے چلانا۔ ان میں توازن رکھنا۔ بہت ضروری ہے۔ کچھ ہجڑے نما مرد جو دوسروں کے گھروںکی باتیں کرتے ہوئے خوف خدا نہیں رکھتے۔کسی کی بہو بیٹیوں کے بارے گفتگو کرتے ہوئے، نہ اپنی بہن /بیٹی کیطرف نظر جاتی ہے اور نہ ہی اپنی بیوی کیطرف، ہم ذہنی مریض ہیں چونکہ غیبت، بغض ،ٹوہ ، تجسس ، حسد ،ہماری بنیادی بیماریاں ہیںجس کے بناءمعاشرتی طور پر ہم اخلاقی گراو¿ٹ کا شکار ہیں،اپنی بیٹی کے لئے حق مہر کا مطالبہ رکھیں گے جو شرعا جائز ہے۔
لیکن جب اپنے بیٹے کی شادی کا مرحلہ آئے گا تو 32 روپے حق مہر پر اصرار کرینگے۔ جب دل میں کوئی کھوٹ نہ ہو۔ نیت میں اخلاص ہو، تو لڑکے کے نکاح کے مواقع پر، لڑکی والوں کو آزمائش میں ڈالنا بہت مجرمانہ فعل ہے۔ جو شرعا حرام ہے۔
فیملی کونسلنگ کے حوالہ سے اکثر میری involvemente رہتی ہے۔ میں نے خصوصا پاکستانی عورتوں کو انتہائی مجبور اور بے بس پایا ہے۔ گھر میں پاکیزہ عورت کو چھوڑ کر بد چلن عورتوں سے تعلقات کئی نودولتیے لوگوں کاوطیرہ ہے۔
جسں گھر میں عورت کو دکھ،درد اور پریشانیاں ملتی ہوں۔وہ گھر جلد تباہ و برباد ہو جاتا ہے اسلئے عورت کو سکھ دو تاکہ گھر میں سکون رہے۔ پاکستانی قوم پوری دنیا میں روز روزگار کی حیثیت سے پھیلے ہیں۔ ۔خلیجی ممالک سے لیکر یورپ اور امریکہ تک ہماری کمیونٹی نے محنت مشقت سے ایک مقام بنایا ہے۔ مگر بحیثیت قوم ہم کسی بھی جگہ اپنا مقام نہیں بنا سکے۔دوسری کمیونٹیز کیطرح ہم اپنا تشخص نہیں ا±بھار سکے۔
ہمارا المیہ ہے کہ ایکدوسرے کی ٹانگیں کھینچیں گے۔ غیبت کرینگے ، نیچا دکھانے کی حتی المقدور کوشش کرینگے۔ چند اشخاص کسی جگہ اکھٹے ہونگے تو غیر خاظر بھائی کی غیبت اور برائی کو اپنا حق سمجھیں گے۔
یہ برائیاں ہماری کمیونٹی کی خواتین میں بھی کوٹ کوٹ کر بھری ہیں۔ مرد ہو یا عورت ہم اس برائی میں ملوث ہیں۔ ۔کسی کا دل دکھانا، ناجائز الزام لگانا، ہماری زندگیوں کاحصہ ہے اور پھر بچیوں کی برائیاں کرنا ہمارے شب و روز میں شامل ہے لیکن یہ عورتیں اور مرد پارسائی کا دعویٰ بھی کرتے ہیں۔ لوگوں کے گھروں کو بھی تباہ کرتے ہیں، یہ تاک جھانک ، ٹوہ اور تجسس سے اللہ اور رسول اللہ نے منع فرمایا ہے۔
ہم اچھائی کا اظہار بھی کرینگے لیکن غیبت اور کسی کی عزت کو اچھالنے کی برائی کو بھی گلے لگائینگے۔میں کئی ایسے لوگوں کو جانتا ہو جو دعوت و تبلیغ بھی کرتے ہیں۔ لوگوں کی برائیاں بھی کرتے ہیں۔ اکثر کہتے ہیں۔ کہ ہم نے کبھی کسی کی برائی نہیں کی۔مگر گھروں کی توڑ پھوڑ میں سب سے آگے نظر آئینگے۔بے شک کسی کا گھر برباد کردیں۔مگر خوف خدا سے انکے دل خالی ہیں۔۔
کمیونٹی آرگنائزیشنز ہوں یا مساجد ،امام ہو یا کمیونٹی لیڈر یا پھر مذہبی رہنمائ، غیبت ، نفرت اور حقارت کی لہر عام ہے۔ مسجد کے انتظامی معاملات سے اگر آپکا کوئی ایشو ہے تو اس مسجد کا امام بھی آپ سے نفرت رکھے گا، ایسا شخص امامت کے بھی قابل نہیں۔
آج ہم کوئی ایسی آرگنائزیشن نہیں بنا سکے جس میں ایکدوسرے مدد کر سکیں۔بیشمار
گروپس بنے ہیں۔ ۔قومی نوعیت کے پروگرام بھی یونیٹی کا تاثر نہیں دے سکے۔
پاکستانی کمیونٹی یورپ،خلیج اور امریکہ میں
اپنا امیج نہیں بنا سکی۔
کمیونٹی میں خود ساختہ لیڈرز کی بہتات ہے۔ ہر آدمی چوہدری ہے۔ پاکستانی اسٹائل کے ڈیرے بنا رکھے ہیںجہاں کھانا کھلا کر دوسروں کی غیبت کرنا عام ہے۔
اپنے تعلقات کو ایکدوسرے کے خلاف استعمال کرنا ہمارا وطیرہ ہے۔
پاکستانی پولیس آفیسرز جو ہمارا فخر ہیں، انکی بھی تین تنظیمات کام کررہی ہیں۔
ان آفیسرز کو پاکستانی پالیٹکس کی طرح اپنا دامن ، فضولیات سے بچا کر رکھنا چاہئے
اگر آپ ایک پاکستانی آفیسر بلائیں تو دوسرا آپ کو ا±س گروپ سے منسوب کردے گا
اگر پہلے گروپ سے آپ کے اچھے مراسم ہیں تو دوسرے والا گروپ اپنے دل میں آپ کے لئے بغض رکھے گا
جسے پاکستانی بیس پولیٹیکل پارٹیز کا یہاں کوئی کام نہیں۔ ویسے ہی ہمارے پولیس آفیسرز کا گروپو ں کی سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہئے۔ انکو دل بڑا کرکے سب کے ساتھ چلنا چاہئے۔ اللہ ہمارا حامی عناصر ہو۔
٭٭٭