ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی
رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مدنی دور میں کسی گستاخ شاعر نے نبی کریم کی شان کے خلاف گستاخانہ اشعار لکھے۔
صحابہ کرام ؓنے اس گستاخ شاعر کو پکڑ کر بوری میں بند کر کے حضور پا ک کے سامنے پھینک دیااور مطالبہ کیا کہ سزا معین ہو۔سرکار دوعالم نے حکم دیا: اس کی زبان کاٹ دو۔تاریخ لرز گئی، مکہ میں جو پتھر مارنے والوں کو معاف کرتا تھا۔ کوڑا کرکٹ پھینکنے والی کی تیمار داری کرتا تھا، اسے مدینے میں آکے آخر ہو کیا گیا ہے ؟ کسی نے عرض کی: یا رسول اللہ میں اس کی زبان کاٹنے کی سعادت حاصل کروں؟ کسی نے اور بھی کہاحضور نے فرمایا: نہیں، تم نہیںتب رسولِ خدا نے حضرت علی ؑ کو حکم دیا یا علی اس کی زبان کاٹ دو۔
مولا علی ؓ بوری اٹھا کر شہر سے باہر نکلے اور حضرت قنبر کو حکم دیا: جا و¿ میرا اونٹ لے کر آو¿۔اونٹ آیا مولا نے اونٹ کے پیروں سے رسی کھول دی اور شاعر کو بھی کھولا بوری سے نکالا اور 2000 درہم اس کے ہاتھ میں دئیے اس کو اونٹ پہ بیٹھایا، پھر فرمایا: تم چلے جاو¿ ان کو میں دیکھ لونگا۔اب جو لوگ تماشا دیکھنے آئے تھے حیران رہ گئے کہ یا اللہ، حضرت علی ؑ نے تو رسول کی نافرمانی کی۔ نعوذ باللہ۔وہ سارے رسول خدا کے پاس شکایت لے کر پہنچ گئے: یا رسول اللہ آپ نے کہا تھا زبان کاٹ دو، علی ؑ نے اس گستاخ شاعر کو 2000 درہم دئیے اور آزاد کر دیا۔حضور مسکرائے اور فرمایا علی ؑ میری بات سمجھ گئے افسوس ہے کہ تمہاری سمجھ میں نہیں آئی۔وہ لوگ پریشان ہوکر یہ کہتے چل دئیے کہ: یہی تو کہا تھا کہ زبان کاٹ دو ۔ علی نے تو کاٹی ہی نہیں۔اگلے دن صبح، فجر کی نماز کو جب گئے تو کیا دیکھتا ہے وہ شاعر وضو کررہا ہے۔ پھر وہ مسجد میں جا کر حضرت محمدکے پاو¿ں چومنے لگتا ہے۔ جیب سے ایک پرچہ نکال کر کہتا ہے: حضور آپ کی شان میں نعت لکھ کر لایا ہوں۔
اور ہوا یوںکہ حضرت علی ؑ نے گستاخ رسول کی گستاخ زبان کو کاٹ کر اسے مدحتِ رسالت والی جدید زبان میں تبدیل کردیا۔ آج مسلمانوں میں جو جنگ و جدل چل رہاہے اسکی وجہ یہی ہے امت امت سے حل پوچھ رہی ہے امت اہل بیت ؑسے حل پوچھ ہی نہیں رہی ہے۔ اگر مسائل اور مشکلات کا حل، مشکل کشاءعلی ؑ جیسے تابع رسول سے لیں گے تو فوراً کسی کی جان لینے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ آج اگر ہم ایسے زبانیں کاٹیں تو کسی بل کی چنداں± ضرورت نہ رہے اور نہ مذہبی جنونیت پھیلے نہ مذہبی انتہا پسندی نہ ہی فرقہ واریت اور نہ قانون کو ہاتھ میں لینا پڑے۔ نہ ہی پکڑ دھکڑ نہ جلاو¿ نہ گھیراو¿ نہ دھرنا نہ کچھ۔ہاں جب گستاخ پھر بھی باز نہ آئے تو اسکی سزا تو پھر کڑی ہے وہ راستہ آخر میں استعمال کیا جائے نہ ابتداء میں۔ اللہ ہم سب کو مولیٰ علیؑ سے مسائل کا حل لینے کی توفیق عطا فرمائے اسلئے کہ آپ باب مدینة العلم ہیں اور حضور نے انہیں اقضی امتی فرمایا!قاضی کو مجرم کی نوعیت جرم دیکھ کر سزا دینی ہے۔ بہت سارے غلط فہمیاں اور منفی پراپیگنڈوں میں آجاتے ہیں اور بہت سارے تو من الجنہ والناس ہوتے ہیں۔حوالہ: روایت دعائم الاسلام، جلد 2، صفحہ 323۔
٭٭٭