ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی
یہ اس زمانے کی بات ہے جب میں دوسری جماعت کا طالب علم تھا اس وقت تک سندرال میں صرف پرائمری اسکول تھا۔ ایک روز چھٹی کے بعد آرہا تھا کہ میرے ایک کزن نے زور سے میرے سر پر تختی ماری اور سر پھاڑ دیا۔ میں خون و خون گھر آیا۔ استفسار پر معلوم ہو ا کہتا ہے کہ یہ ہمارا ہی کزن ہے مگر لائق کیوں ہے؟ یہ زندگی کی پہلی سزا تھی جو سبق یاد کرنے کے عوض ملی۔ میرے وہ کزن مجھے پیارے بھی بہت ہیں انکی اہلیہ بھی میری کزن ہیں۔ راولپنڈی میں بزنس مین ہیں اور میں انہی کے گھر عموماً مہمان رہتا ہوں۔ مجھے نہیں یاد وہ مجھے کبھی ملے ہوں اور انہوں نے تختی کا ذکر نہ کیا ہو۔ پرائمری، مڈل سندرال ہائی اسکول خوشاب و بھکر اور کالج بھکر جوہر آباد اور ساہیوال فورتھ ائر کالج تک میں مانیٹر رہا ہوں اور استادوں کا منظور نظر تھا۔ اسکے بعد مار نہیں پڑی تاہم دوست احباب پیار کرتے رہے البتہ حسد کی چکی میں پستے بھی رہے۔ خوش قسمت ہوں اسکول و کالج میں میرے ساتھ حسد کم ہوا زیادہ نہیں۔خدا خدا کرکے کالج سے نکلے تو مدرسوں کے ماحول نے گھیر لیا۔ الحمد للہ باقرالعلوم الجعفریہ کوٹلہ جام ،جامعت الشیعہ کوٹ ادو دارالعلوم الجعفریہ خوشاب اور عزیز المدارس چیچا وطنی میں تقریباً چھ سال مجموعہ پڑھا ہوں، ساتھ ہی سکول کالج بھی پڑھتا تھا۔ زمانہ بہت اچھا تھا میرے ساتھ چاروں مدارس میں حسد ہوا ہی نہیں۔ میرے ساتھ ہم وطنوں نے حوزہ علمیہ ق±م میں اس وقت حسد کی اخیر کردی جب میں مدرس لگ گیا۔ حالانکہ میرے ساتھ ہی برادرم علامہ راجہ محمد مظہر علی خان بھی مدرس لگے تھے ،ان سے کم مجھ سے زیادہ ایک زمانہ تو ایسا بھی آگیا کہ میرے خلاف مشرق و مغرب اکٹھے ہوگئے اور میرے دوستوں نے میری مرضی کے خلاف مجھے الیکشن میں کھڑا کردیا۔ الیکشن تو میں اتنی بھاری اکثریت سے جیتا کہ مخالف کی ضمانت ضبط ہونے کا استعارہ پورا ہو گیا،اس الیکشن نے میری آنکھیں کھول دیں اور بحمد اللہ حاسدوں کو منہ کی کھانی پڑی۔اکثر تو مروڑ زمان کے ساتھ مخاصمت چھوڑ گئے مگر ایک آدھ شخص نے تو میرے ساتھ یوں ٹھان لی کہ شکایت بازی تک، کردار کشی تک اور تذلیل تک کی اور کر رہا ہے۔ میں گرین کارڈ ہولڈرہوں تو اسے تکلیف، میں سٹی زن ہوں تو اسے مروڑ ہیں، ڈاکٹریٹ کروں تو اسے تپ میں حوزہ بناو¿ں تو اسے اذیت۔ میں سطوح پڑھاو¿ں تو اسے دورہ پڑے، میں خارج پڑھاو¿ں تو اسے درد۔ میں مجلس پڑھوں تو اسکو جان کے لالے پڑیں ،اللہ ہدایت فرمائے۔ ق±م سے فارغ التحصیل ہوکر پاکستان آئے تو وہاں تو کوئی پرسان حال نہیں۔ ہمت کرکے خطابت کے میدان میں نکلے تو جگہ جگہ حسد، مدارس میں پڑھانا شروع کیا تو حسد، کالم نویسی شروع کی تو اسمیں حسد۔ دیکھتے ہی دیکھتے امریکہ آگئے تو قرآن پڑھائیں تو حسد، مجلس محنت سے پڑھیں تو حسد۔ میڈیا پر آگئے تو حسد اپنا ٹی وی بنا لیا تو حسد۔ انگلش سیکھی تو حسد۔ عربی فارسی بولیں توکرم فرما جل جائیں۔ اردو شستہ بولیں تو محسود واقع ہوں۔ گاڑی اچھی چلائیں تو باز پرس ،کپڑے اچھے پہن لیں تو اظہار برہمی۔ حافظہ تیز ہو تو پریشانی۔ سبقت لے جائیں تو پشیمانی۔ لوگ عزت کریں تو حسد، ہم لوگوں کی عزت کریں تو حسد، حتی میں غریب کورونا کے مریضوں کی مرگ پر انکو غسل میت دوں تو حسد۔ میری کتابیں چھپیں تو حسد،میرے دروس پاپولر ہوں تو حسد۔ قارئین اتنے حاسدین کی مہربانیوں کے باوجود ساٹھ سال گزر گئے مجھے تو آج بھی ایسے لگتا ہے مجھے حسد کی تختیاں آج بھی لگ رہی ہیں تاہم اب میں عادی ہو گیا ہوں۔ آگے بھی اللہ ہمت دے اور محسود بنائے رکھے ،یا اللہ مزید ہمت عطا فرما کہ حاسدوں کیلئے دعا کر سکوں اور دل برداشتہ نہ ہوں، حاسدوں کو رشک و محنت کی توفیق عطا فرما۔
قارئین حسد ایسی عفریت ہے جو سگے بھائی کو قتل کرا دیتی ہے اور بھائی کو کنوئیں میں ڈلوا دیتی ہے۔ ہم تو کیا دنیا نے ہادیان برحق سے حسد کیا۔ جیسے ہنوز کورونا کی ویکسین دریافت نہیں ہوئی ،احتیاط ہی کارگر ہے، ویسے ہی حسد کی ویکسین ناپید ہے مگر یہ کہ انسان قرآن و حدیث سے سیکھے اور تاریخ سے عبرت حاصل کرے۔
٭٭٭