وزیر اعظم عمران خان نے یوم دفاع پاکستان پر جاری اپنے ٹوئٹر پیغام میں وطن عزیز کو قائد اعظم کا پاکستان بنانے کے لئے انیس سو پینسٹھ والے جذبے کو ضروری قرار دیا۔یوم دفاع پاکستان پر فوجی جوانوں اور افسران کو اعزازات عطا کرنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی اسیجذبے اور عزم کی بات کی جس پر وزیر اعظم بات کر رہے تھے۔وہ بھی سیاسی قیادت کے شانہ بشانہ ملک کو مشکلات سے نکالنے کو ترجیح قرار دے رہے تھے۔ آرمی چیف نے کہا کہ پاکستان پر جنگ مسلط کی گئی تو اینٹ کا جواب پتھر سے دیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ بھارت نے ہمیشہ غیر ذمہ دارانہ رویہ اختیار کیا ،پاکستانی قوم ہر بار سرخرو ہوئی۔آرمی چیف نے کہا کہ ففتھ جنریشن اور ہائبرڈ وار کے خطرے سے آگاہ ہیں اور ملک و قوم کی حفاظت فوج کا فریضہ ہے۔ وار فئیر ماڈل کا استعمال سنہ 1648 میں معاہدہ امن ویسفالیہ کے بعد شروع ہوا۔ یہ معاہدہ اس 30 سالہ جنگ کے بعد ہوا تھا جو اس وقت کی جرمن سلطنت اور دوسرے ممالک کے درمیان مذہبی بنیاد پر شروع ہوئی تھی۔تاریخ میں لکھا ہے کہ اس جنگ میں تقریباً 80 لاکھ لوگ ہلاک ہوئے تھے۔ یہ جنگ کیتھولک عیسائیوں اور پروٹیسٹنٹ عیسائیوں کے درمیان مذہبی منافرت کی بنیاد پر شروع ہوئی تھی۔جنگوں کے ماڈل یعنی وار فئیر ماڈل کی اصطلاح اسی معاہدے کے بعد سے شروع ہوئی اور اس 30 سالہ جنگی دور کو ‘فرسٹ جنریشن وار فئیر’ کہا گیا۔اس جنگ اور اس کے خاتمے کے بعد دنیا بھر میں عہد حاضر میں رائج خود مختار ریاستوں کے نظام کا آغاز ہوا۔ ایک ریسرچ کے مطابق فرسٹ جنریشن وار فیئر جنگوں کی وہ شکل ہے جس میں بڑی سلطنتیں ایک دوسرے کے خلاف جنگ لڑ رہی ہوتی ہیں۔ ان جنگوں کو ‘فری انڈسٹریل وارز’ بھی کہا گیا ہے۔اس جنریشن میں انفنٹری یا فوج کے دستے ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہوتے ہیں اور انسانی قوت کو کامیابی کا منبع سمجھا جاتا ہے یعنی جتنی بڑی فوج ہوگی اتنی ہی زیادہ کامیابی ہوگی۔یہ پہلی جنریشن17 ویں صدی کے وسط سے لے کر 19 ویں صدی کے آخر تک چلتی رہیں اور انھی اصولوں پر دنیا بھر میں مخلتف جنگیں لڑی گئیں۔ ایک تحقیق کے مطابق سیکنڈ جنریشن وار فیئر ٹیکنالوجی کی جنگیں تھیں جس میں فوج کے دستوں کی جگہ طاقتور ہتھیاروں نے لے لی اور جنگوں میں بڑا اسلحہ جیسا کہ مشین گن، میگزین رائفلز، توپوں نے لے لی۔ ان جنگوں کو ٹیکنالوجی کی جنگیں قرار دیاگیا۔ تھرڈ جنریشن وار فیئر میں جنگیں آئیڈیاز یعنی تصورات کی بنیاد پر شروع ہوگئیں۔ ان جنگوں میں مختلف چالوں سے دشمن قوتوں کی جنگی طاقت کو کمزور کیا جاتا ہے یا ایسی جگہوں سے حملہ کیا جاتا ہے جس میں مخالف فریق کو پتہ نہیں چلتا کہ کہاں سے حملہ ہوا ہے۔جدید دور کی جنگوں کو فورتھ جنریشن وار فیئر کا نام دیا گیا ہے۔ مختلف تحقیقی مقالوں میں لکھا گیا ہے کہ فورتھ جنریشن وار فیئر کی اصطلاح سنہ 1989 کے بعد سے شروع ہوئی۔اس جنریشن کی جنگوں میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کو شامل کیا گیا ہے۔ آئی ایس پی آر کے سابق سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے ایک بار ففتھ جنریش وار پر بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ میڈیا، بالخصوص سوشل میڈیا کو ففتھ جنریشن وار فیئر سے اس لئے جوڑا جا رہا ہے چونکہ سوشل میڈیا ہی ایک ذریعہ ہے جس کو دنیا بھر میں ‘ملٹرائزڈ آپریشن’ یعنی فوجی تسلط کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔سوشل میڈیا پر آئے روز سکیورٹی اداروں اور شخصیات کی کردار کشی کی جارہی ہے ،اس منظم کارروائی میں بعض اوقات ایسے لوگ بھی شامل ہو جاتے ہیں جو سول بالادستی کا نعرہ لگاتے ہیں،ان کا موقف بظاہر جمہوری اقدار سے ہم آہنگ معلوم ہوتا ہے لیکن اس کے پس پردہ تخریبی قوتیں سرگرم ہوتی ہیں۔پاکستان نے بیس سال تک دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑی ہے۔ اس جنگ میں سینکڑوں نہیں ہزاروں سکیورٹی اہلکاروں نے جان کی قربانی دی۔یہ جنگ کئی محاذوں پر لڑی گئی ، کبھی پاک بھارت کشیدگی ،کبھی پاک افغان تناو، کبھی ملک میں فرقہ وارانہ سازشیں، کبھی ملکی معیشت کے خلاف چالیں اور کبھی بد عنوانی کا دفاع کر کے اور کبھی اداروں میںتصادم کو ہوا دے کر پاکستان کے مفادات پر حملہ کیا گیا۔ان حملوں کو روکنے کے لئے مسلح افوج نے دلیرانہ کردار ادا کیا۔ ایک ایسی ریاست جسے بھارت جیسے بڑے دشمن کی جارحیت کا سامنا ہو وہ اپنی دفاعی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے روائتی ہتھیاروں اور فرسودہ طریقہ جنگ پر بھروسہ نہیں کر سکتی۔پاکستان عالمی برادری کے سامنے کئی بار اپنا یہ موقف پیش کر چکا ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ کشمیر سمیت تمام تنازعات کو پرامن طریقے سے طے کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان کی اس پیشکش کے جواب میں بھارت کبھی اسلحے کے ڈھیر جمع کرتا ہے اور کبھی اپنے طیاروں کو پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کا مشن سونپتا ہے۔ ایک ایسی فوج جس نے بیس سال سوویت طاقت کے خلاف افغان جہاد کی قیادت کی ہو اور اتنے ہی برس دہشت گردی کے خاتمہ کی جنگ لڑی ہو اس کے لئے جنگ کوئی بڑا چیلنج نہیں۔ پاکستانی قوم اپنی بہادر افواج کی جمہوریت کے فروغ کے لئے کوششوں اور ملک کو محفوظ بنانے کے عزم کی قدر کرتی ہے۔
٭٭٭