Ramzan Rana. Legal Analyst. M. A , LLB & LLM (USA
چھ ستمبر کو ہر سال پاکستان میں یوم دفاع بڑی دھوم دھام سے منایا جاتا ہے جو نہایت موزوں تہوار بن چکا ہے کہ جس دن مشرقی اور مغربی پاکستان کی قوم نے ملک کا دفاع کیا تھا جس میں دونوں اطراف کے لوگ شریک تھے، اگر مغربی سرحد پر پاک فوج لڑ رہی تھی تو مشرقی سرحد پر پاک بنگال ٹائیگر بھی اپنی بہادری کے جوہر دکھا رہی تھی، جس سے بھارتی توسیع پسندانہ عزائم خاک میں مل گئے تھے اگر مشرقی پاکستان کے عوام جنگ میں شریک نہ ہوتے تو پاکستان پر بھارت کا قبضہ ہو جاتا، اگرچہ 1965ءکی جنگ کے بارے میں مختلف آرا پائی جاتی ہیں کہ کس نے جگ چھیڑی تھی، بعض نے بھارت اور بعض نے پاکستان کو مورد الزام ٹھہرایا ہے، پاکستان کے پہلے ایئر فورس کے سربراہ ایئر مارشل اصغر خان نے اپنے لا تعداد انٹرویوز، بیانوں اور کتابوں میں جنرل اویب خان پر الزام لگایا ہے کہ انہوں نے بناءصلاح و مشورے جبرالڈ آپریشن کے نام پر مہم جوئی کی تھی جس کی کوئی منصوبہ بندی نہ تھی یہ وہ جنرل ایوب خان تھے جنہوں نے قائد اعظم کے حکم سے انکار کیا تھا کہ جب جنرل گریسی اور جنرل ایوب خان کو کشمیر میں فوج اُتارنے کا حکم دیا گیا تو ان دونوں جنرلوں نے انکار کر دیا پھر جنرل ایوب خان نے 1962ءمیں چین کا مشورہ نہ ماناجب چین نے ستمبر میں فوج داخل کرنے کو کہا تو جنرل ایوب خان بھاگ نکلے، اب نہ جانے کس کے حکم پر اچانک چھمب جوڑیاں کے مقام پر جنگ چھیڑ دی جس میں پاکستان کو بھارت کی نسبت زیادہ زمینی اور جانی نقصانات ہوئے جس میں تقریباً دو ہزار مربع میل زمین بھارت کے قبضے میں چلی گئی تھی جو معاہدہ تاشقند کے تحت واپس ملی تھی جبکہ پاکستان بھارت کے 570 مربع میل پر قابض تھا جو بھارت کو واپس کر دیا گیا اسی طرح پاکستان کی فوجی جوانوں کی بھارت کی نسبت زیادہ شہادتیں برپا ہوئیں جس سے لگتا ہے کہ جنرل ایوب خان نے امریکہ کے اشارے پر بھارت پر حملہ کیا تھا جس طرح جنرل مشرف نے پاکستانی وزیراعظم اور کمانڈر ان چیف صدر کے حکم پر کارگل جنگ چھیڑ کر سینکڑوں پاکستانی جوانوں کو شہید کروایا جس سے امریکہ کو بھارت کو بلیک میل کرنے کا موقع مل گیا جس کے بعد سے آج تک امریکہ بھارت کے قریب آچکا ہے جو چند دہائیوں سے پہلے روس کا اتحادی اور تیسری دنیا کا حامی تھا چونکہ پاکستانی جنرلوں کی تاریخ گواہ ہے کہ جنہوں نے سامراجی اور استعماری طاقتوں کے حکم پر سینٹو سیٹو، افغان جہاد اور دہشتگردی کی پرائی جنگیں لڑنے کا گماشتہ رہے ہیں لہٰذا بقول ایئر مارشل اصغر خان جبرالڈ آپریشن بھی مشکوک پایا جاتا ہے باوجود یہ کہ تمام تحویلوں اور حماقتوں کے چھ ستمبر 1965ءکو پاکستانی قوم نے بھارت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے جس کو تاریخ کبھی بھی بھول نہیں سکتی ہے، اسی طرح پاکستانی شہریوں کو خوشیوں کے ترانوں اور گانوں کےساتھ ساتھ جو چودہ اگست اور چھ ستمبر کو بجائے اور گائے جاتے ہیں ایسے موقع پر بنگالی قوم اور سولہ دسمبر 1971ءکا سقوط ڈھاکہ کو بھی یوم سوگ کے طور پر منانا چاہیے جس دن پاکستان کی قرارداد پیش کرنے والی پاکستان کے حق میں ووٹ دینےو الی بن کر رہے گا پاکستان بنانے والی اور اکثریت میں الیکشن جیتنے والی قوم جو ہم سے سولہ دسمبر 1971ءکو الگ ہو گئی جو مسلم تاریخ کا بہت بڑا سانحہ ہے کہ جس طرح ایک بھائی دوسرے بھائی سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے جدا ہو جاتا ہے جن کے معافی تلافی پر رشتہ قائم رہتا ہے اسی طرح کیوں نہ پاکستانی قوم اپنے حکمرانوں کو مجبور کرے کہ وہ لاکھوں بنگالیوں کے قاتلوں اور عورتوں کی عزتیں لوٹنے والوں کو کڑی سزائیں دیں۔ بنگالی قوم سے سر عام معافی مانگیں۔ ملک توڑنے والے جنرلوں کو قبروں سے نکال کر ہڈیوں کی سزائیں دے، مسلم بنگالی قوم سے سر عام معافی مانگیں جس طرح بھٹو نے بین الاقوامی مسلح کانفرنس میں بنگالی قیادت شیخ مجیب الرحمان کو پاکستان آنے پر مجبور کیا جس کے بعد تعلقات تب خراب ہوئے جب بنگالی فوج نے پاکستانی ایجنسیوں کے اشارے پر شیخ مجیب الرحمن کو خاندان سمیت قتل کر دیا تھا جس کے بعد آج تک بنگالی قوم پاکستان پر اعتماد اور بھروسہ نہیں کرتی ہے بہر کیف جنرل ایوب خان کے وزیر قانون سابقہ چیف جسٹس منیر احمد کی کتاب جناح سے ضیاءتک گواہ ہے کہ جنرل ایوب خان امریکہ کی خواہش پر بنگال کو الگ کرنا چاہتا تھا جس کیلئے تمام اسباب بنائے گئے ہیں جس میں پہلے اگر حملہ سازش بغاوت کیس جس میں جنرل ایوب خان کو ناکامی ملی جس میں پاکستان کے مشہور ایئر مارشل اصغر خان نے جنرل ایوب خان کے خلاف تحریک چلائی جس کی بدولت شیخ مجیب اور بھٹو رہا ہوئے جس کے بعد شیخ مجیب جنرل ایوب خان کو گول میز کانفرنس میں بھی شریک ہوئے جس میں زیڈ اے بھٹو غیر حاضر رہے۔ پھر اسی سازش کو پایہ¿ تکمیل جنرل یحییٰ خان نے پہنچایا جب انہوں نے پاکستان کی اکثریتی پارٹی عوامی لیگ کو اقتدار دینے سے انکار کر دیا جو ملک ٹوٹنے کا سبب بنا حالانکہ مغربی پاکستان کی قیادت اصغر خان، ولی خان، غوث بخش بزنجو، شاہ احمد نورانی، رضا قصوری اور دوسرے لوگوں نے شیخ مجیب سے ڈھاکہ میں پارلیمنٹ کا اجلاس بلانے کا مشورہ دیا تھا کہ وہ مغربی پاکستان سے اجلاس میں شریک ہونگے جس پر شیخ مجیب تیار ہوگئے مگر فوجی جنتا نے بنگال میں بلا جواز آپریشن شروع کر دیا جس میں ہزاروں بنگالی روزانہ مارے جانے لگے جو آخر کار ملک ٹوٹنے کا سبب بنا جبکہ شیخ مجیب نے جیل میں پاکستان بچانے کیلئے واویلا مچایا جس کو جنرلوں نے سننے سے انکار کر دیا تھا۔ بہرحال چھ ستمبر کای وم دفاع کی طرح سولہ دسمبر کا یوم سوگ منانا سابقہ زخموں پر مرہم پٹی لگانے کے مترادف ہے جس سے مسلم دنیا میں خصوصاً برصغیر میں نفاق کی بجائے اتفاق پیدا ہوگا جس سے خطے میں امن کا پرچار ہوگا لہٰذا جتنا امن ہوگا اتنا مذہب اسلام پھیلے گا جو جنگ و جدل میں نہیں پھیل سکتا ہے جس کا مذہب اسلام درس دیتا ہے۔
٭٭٭