انصار الرحمن
انسانی معاشرہ میں رہنے والے ہرفرد کو چین سکون راحت اور اطمینان لازمی طور پر چاہئے ہوتاہے، کوئی بھی شخص یہ ہرگز نہیں چاہے گا کہ اس کی زندگی میں مشکلات تکلیفیں اور پریشانیاں ہوں ، خواہ اس کا تعلق بھی قوم ، ملک اور مذہب سے ہو۔ انسانوں اور جانوروں میں سب سے بڑا فرق یہ ہے کہ انسان جو بھی کچھ کرتا ہے سوچ سمجھ کر کرتاہے، اس کے کسی بھی عمل سے کسی بھی فرد کیلئے تکلیف یا پریشانی کے مسائل نہیں پیداہوتے جبکہ جانور جانور ہے جدھر چاہے چلا جائے اور جیسے چاہے ٹکر ماردے۔ دنیا کی ابتدا سے ہی رب العالمین نے مختلف قوموں اور ملکوں میں نبی اور رسول بھیجے تاکہ وہ ہر شخص کو معاشرہ میں باعزت طور پر زندگی گزارنے کی تعلیم دیں کہ وہ ایک دوسرے کیعزتکریں، ہمدردی اور اخوت کو اپنائیں۔ ان کی رہنمائی کیلئے آسمانی کتابیں نازل کیں جن کا ایک ایک تفظ سکون اور سلامتی کا مظہر ہوتا تھا۔ آخرم یں جناب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھیج کر اور قرآن شریف نازل فرما کردین اسلام کی تکمیل فرما دی۔ اس دنیا میں جتنے بھی مذاہب ہیں ان کے ماننے والوں کیلئے ہدایت اور رہنمائی کا سبق صرف قرآن شریف اور جناب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات میں م خفی ہے۔ کوئی بھی شخص ہو چھوٹا یا بڑا مرد ہو یا عورت لازمی طور پر یہ چاہتاہے کہ اس کی عزت کی جائے اور کسی بھی طرح کوئی بھی شخص اس کیلئے تکلیف اور پریشانی کا کوئی کام نہ کرے۔
وقت کے ساتھ ساتھ مختلف علوم ترقی کے راستے پر گامزن ہیں۔ آج کل مواصلات میں جو آسانیاں ہیں کبھی اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ دوسری طرف انسانیت ، شرافت اور شرم و حیا کا جنازہ نکل چکاہے۔ ا کثر و بیشتر لوگ دوسروں کیلئے تکلیفوں پریشانیوں اور مصیبتوں کا سبب بن چکے ہیں اوروہ ہر قدم پر ظلم و زیادتی کرنے والے شرافت کا لبادہ اوڑھے تباہی و بربادی سے مخلف ملکوں اور قوموں کو تباہ و برباد کررہے ہیں۔ ان کے نزدیک انسانی جانوں کی کوئی اہمیت اوروقعت ہی نہیںرہی جسے چاہا مار دیا اور جس کو چاہا تباہ و برباد کردیا اس دنیا میں مخلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے رہتے اور بستے ہیں کسی بھی مذہب نے کسی کو بھی دوسروں پر ظلم و ستم اور تباہی و بربادی کا درس نہیں دیا۔ کسی کوب ھی تکلیف دینا، پریشان کرنا، ظلم و ستم کرنا بیڑہ غرق کر دینا انسانیت کے دعویداروں پر بہت بڑا داغ ہے۔
ایک زمانہ سے شام اور فلسین میں انسانی مخلوق پر ظلم و ستم ہو رہاتھا ۔ بچوں اور خواتین کو بھی نہیں بخشا جارہا تھا۔ گ ھر کے گھرتباہ وبرباد کردیئے جاتے تھے۔ انسانوں کے لباس میں ملبوس درندے مسجدوں اور دوسری عبادت گاہوں میں گھس جاتے تھے اوردہشت گردی کرتے ہوئے لوگوں کو تباہ وبرباد کر دیتے تھے، ان مظلوم انسانوں میں اکثریت ان سادہ لوح مسلمانوں کی تھی جو غنڈوں کا شکار قدم قدم پر ہو رہے تھے۔ زمانہ یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا اور انسانیت کا ماتم کر رہا تھا۔ اس وقت سب سے بڑا ظلم اور عذاب کشمیر کے بے بس اور بے کس مسلمانوں نازل ہواہے۔