حضرت امام حسین اور بین الاقوامی قائدین!!!

0
230
Dr-sakhawat-hussain-sindralvi
ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی

 

ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی

اختصار کے پیش نظرہم نے اس سلسلہ جلیلہ میں مختلف اسلامی مکاتیب فکر کے ساتھ تعلق رکھنے والے اکابرین ومفکرین کے قیمتی آراءکودرج نہیں کیا بلکہ صرف غیرمسلم مفکرین اور وہ بھی سینکڑوں میں سے صرف عقل قلیل کے گلہائے عقیدت وتحسین وآفرین کے کلمات کے چند اقتباس پیش کئے ہیں۔ 1:- مہاتما گاندھی سابق صدرانڈیا (بھارت)میں اہل ہند کے سامنے کوئی نئی بات پیش نہیں کرتا بلکہ میں نے کربلا کے ہیرو کی زندگی کا بخوبی مطالعہ کیا ہے اور اس سے مجھ کو یقین ہوگیا ہے کہ ہندوستان کی اگرنجات ہوسکتی ہے توہم کو حسینی اصولوں پرعمل کرنا چاہئے۔2 :- پنڈت جواہرلعل نہرو، سابق وزیراعظم انڈیا کربلا کے عدیم المثال ہیرو اوراس کی قربانی کی جواس ہیرو نے مفادانسانی کی خاطرپیش کی جذبہ تفاخر کوبلند کرتی ہے۔ 60 ہجری کا واقعہ امام حسین ؑکی جرآت واستقلال کی ایک زبردست یادگار ہے جواب تیرہ سوسال قبل رونما ہوا تھا۔ ہرفرقہ ،ہرقوم اورفرد کو استقلال اوراپنی جرآت وہمت میں اضافہ کی کوشش کرنی چاہیے اوراپنے جذبہ ایثاروقربانی کوعروج و ترقی کی انتہائی منزل پرپہنچانا چاہیے میں بھی اپنی جانب سے انہیں خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔3 سوامی شنکر آچاریہ جی انڈین مذہبی راہنما اگرامام حسینؑ نہ ہوتے تودنیا سے اسلام کا وجود مٹ جاتا اوردنیا ہمیشہ کےلئے خدا پرستی اورنیکیوں سے خالی ہوجاتی میں نے امام حسینؑ سے بڑھ کر کوئی بڑا شہید نہیں دیکھا اورحسینؑ کی شہادت سے زیادہ کسی شہید کی قربانی کا اثر نہیں ہوا۔4 :- سررادھا کرشن وائس چانسلر ہندو یونیورسٹی بنارس امام حسین نے اپنی قربانیوں اورایثار سے دنیا پرثابت کردیا کہ دنیا میں حق وصداقت کوزندہ اور پائندہ رکھنے کے لئے ہتھیاروں اور فوجوں کی بجائے جانوں کی قربانی کی ضرورت ہے۔ انہوں نے دنیا کے سامنے ایک مثال پیش کردی ہے۔ آج ہم اس بہادر جان فدا کرنے والے اورانسانیت کو زندہ کرنے والے عظیم الشان انسان کی یادگار مناتے وقت اپنے دلوں میں فخرومباہات کا جذبہ محسوس کرتے ہیں۔ امام حسین ؑنے ہمیں بتایا کہ حق و صداقت کےلئے سب کچھ قربان کیا جا سکتا ہے۔5 :- ہزہائنس دھیراج مہند بہادر سکھ مہاراجہ آف پٹیالہ حضرت امام حسینؑ نے انسان کی خدمت بہادری سے اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے خدمت کا طریقہ بتادیا ہے اسی لئے لاکھوں روپے خرچ کرکے ہرقوم کے لوگ آپ کی یادگار ہرسال مناتے ہیں۔6 :- دستورکخیسرومہیارکتورپیشوائے اعظم فرقہ پارسی بمبئی اگرشہدائے کربلا کی قربانیاں نہ ہوتیں، دنیائے اخلاق ومذہب و صداقت سے ناآشنارہتی۔ دنیا ان شہیدوں کی ممنون ہے جنہوں نے موت کوذلت پرترجیح دی۔ امام حسین ؑان شہداءمیں سے ہیں جنہوں نے انسانیت کی خدمت کےلئے جان دے دی ہم ان کی یاد اپنے عمل سے منانا چاہیے اوران کی قربانیوں سے سبق لینا چاہیے۔(جاری ہے)
7 ) :- مو¿رخ مسٹرواشنگٹن ایرونگ سابق صدر امریکہ
حضرت امام حسینؑ اس وقت مدینہ میں تھے جہاں دس گیارہ برس سے اپنے بھائی کے ساتھ کوفہ سے چلے گئے تھے وہ سمجھے کہ میں نے یزید کی باقاعدہ بیعت کرلی تو یقینا” سارا عالم میرے ساتھ بیعت کرلے گا اورتمام ناجائز افعال سنت ہوکر رواج پائیں گے۔ نہایت ایمانداری اوربڑی جوانمردی سے تمام مصیبتوں کے مقابلے میں صاف انکارکردیا۔ وہ خود انہی کا یہ مقدس خیال تھا کہ جان دواوریزید اموی کے ہاتھ سے بندگان خدا کا ایمان بچاو¿۔ جب الہام یا خود اپنی حق پسند طبیعت نے فیصلہ کردیا تواب زمانے کی کوئی قوت اوردنیا کی کوئی مصیبت ان کو اس ارادہ سے پھیرنے میں کامیاب نہ ہوسکی۔ یہاں تک کہ ہزاروں آدمیوں کے مقابلہ میں فقط بہترآدمی ہوگئے۔ جن کی تعداد پوری کرنے کو ایک چھ ماہ کا بچہ بھی تھا، یہی لوگ درحقیقت ایک سچے مذہب کا نمونہ تھے محرم کی دسویں 61 ہجری مطابق 10 اکتوبر680ءاس لاجواب لڑائی کی تاریخ ہے۔
نہایت آسانی سے ممکن تھا کہ حضرت امام حسینؑ یزیداموی سے اس کی تمنا کے موافق بیعت کرکے اپنی جان ومال بچالیتے مگراس ذمہ داری کے خیال نے جومذہبی ریفارمر کی طبیعت میں ہوتا ہے اس بات کا اثرنہ ہونے دیا اورنہایت سخت مصیبت اورتکلیف پرایک بے مثل صبرواستقلال کےساتھ قائم رہنا اولاد کا سامنے قتل ہونا چھوٹے چھوٹے بچوں کا مارا جانا زخموں کی تکلیف، عرب کی دھوپ پھر اس دھوپ میں زخمی کی پیاس۔ یہ ایسی تکلیفیں نہ تھیں جوسلطنت کے شوق کے سامنے آدمی کوصبر کے ساتھ اپنے ارادے پرقائم رہنے دیتیں۔
8 :- مسٹر کارلائل مصنف ہیرو ورشپ
بہادرانہ کارنامے محض ایک قوم یا ایک ملک تک محدود نہیں رہتے بلکہ تمام انسانی برادری کی میراث اورملکیت ہوجاتے ہیں۔ ان کی وجہ سے آنے والی نسلوں میں سلسلہ شجاعت اوراستقامت باقی رہتا ہے۔ اس لحاظ سے واقعہ شہادت امام حسین پرجس درجہ غوروفکر کیا جائےگا اسی قدر اس کے اعلیٰ اور عمیق مطالب روشن ہوجائیں گے۔ اچھا آو¿ دیکھیں کہ واقعہ کربلا سے ہمیں کیا سبق حاصل ہوتا ہے۔ سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ فاتحان کربلا کو خدا کا کامل یقین تھا اور وہ اپنی آنکھوں سے اس دنیا سے اچھی دنیا دیکھ رہے تھے۔ اس کے علاوہ قومی غیرت وحمیت کا بہترین سبق ملتاہے جوکسی اور تاریخ سے نہیں ملتا اورایک نتیجہ یہ بھی حاصل ہوتا ہے وہ یہ کہ جب دنیا میں مصیبت اورغضب وغیرہ بہت ہوجاتا ہے تو خدا کا قانون قربانی مانگتا ہے اس کے بعد تمام راہیں صاف ہوجاتی ہیں۔
9 :- ایڈورڈ گبن مو¿رخ ومصنف ڈکلائین اینڈ فال رومن امپائر
خاندان بنی ہاشم کی سرداری اور رسول اللہ کا متبرک چال چلن ان امام حسینؑ کی شخصیت میں مجتمع تھے۔ یزید کے خلاف ان کو اپنا مقصد پورا کرنے کی آزادی تھی جو کہ دمشق کا ظالم حاکم تھا اورجس کی برائیوں کو وہ نفرت کی نگاہ سے دیکھتے تھے اورجس کا منصب خلافت انہوں نے کبھی تسلیم نہیں کیا۔ یوم قتل کی صبح کو امام حسینؑ ایک ہاتھ میں تلوار اوردوسرے میں قرآن لےکرپشت مرکب پرسوارہوئے۔ قریب بمرگ ہیرو ان پرحملہ آورہو¿ا کہ یزید کے بہادرسپاہی ہرطرف بھاگ نکلے۔ امام حسینؑ کا پردردواقعہ ایک دوردراز ملک میں واقع ہوا یہ ایک ایسا واقعہ ہے جوبے رحم و سنگ دل کو بھی ہلا دیتا ہے اگرچہ کوئی کتنا ہی بے رحم ہومگرامام حسینؑ کا نام سنتے ہی اس کے دل میں ایک جوش ہمدردی پیدا ہو جائے گا۔
10:- مسٹرجیمس کارکرن مصنف تاریخ چین
دنیا میں رستم کا نام بہادری میں مشہور ہے لیکن کئی شخص ایسے گزرے ہیں جن کے سامنے رستم کا نام لینے کے قابل نہیں۔ چنانچہ اول درجہ میں حسینؑ بن علی کا مرتبہ بہادری میں ہے کیونکہ میدان کربلا ریت پرتشنگی اورگرسنگی میں جس شخص نے ایسا کام کیا ہو اس کے سامنے رستم کا نام وہی شخص لیتا ہے جوتاریخ سے واقف نہیں ہے۔ ایک کی داد ومثل مشہور ہے اور مبالغہ کی حد بھی ہے جب کسی کے حال میں یہ کہا جاتا ہے کہ دشمن نے چاروں طرف سے گھیرلیا لیکن حسین اوربہترین کو آٹھ قسم کے دشمنوں نے تنگ کیا تھا اوراس پربھی قدم نہ ہٹا، چنانچہ چاروں طرف دس ہزارفوج یزید کی تھی جن کے تیروں اورنیزوں کی بوچھاڑ مثل آندھی کے آتی تھی، پانچویں دشمن عرب کی دھوپ ہے اورچھٹا دشمن وہ ریت کا میدان تھا جو آفتاب کی تمازت میں شعلہ زن اور تنورکی خاکستر سے زیادہ پرسوز تھا بلکہ دریا قہر کہنا چاہیے جس کے بلبلے بنی فاطمہ کے پاو¿ں کے آبلے تھے اوردشمن سب سے ظالم بھوک اورپیاس مثل دغا باز ہمراہی کے تھے۔ پس جنہوں نے ایسے معرکہ میں ہزارہا کافروں کا مقابلہ کیا ہو پس ان پرخاتمہ بہادری کا ہوچکا۔
11:-ڈاکٹر میسور ماربین جرمنی مو¿رخ سیاست اسلامیہ
ہمارے نزدیک قانون محمد کی حفاظت اورمسلمانوں کی ترقی اوراسلام کی اشاعت یہ سب کچھ حسینؑ کے قتل ہوجانے سے اور ان واقعات کے پیدا ہوجانے سے ہے۔ ملکی احساس اورہیجان مذہبی جوتعزیہ داری سے پیدا ہو¿ا کسی قوم میں نظرنہیں آتا تمام اعلیٰ صفات اورپولیٹیکل ریزولوشن کا احساس، امام حسینؑ کی عزاداری سے ہوگیا ہے اورجب تک اس عمل کو اپنا ملکہ قراردیتے رہیں گے پستی اورزبردستی قبول نہ کریں گے۔ امام حسینؑ اپنے زمانے میں سیاست اعلیٰ درجہ رکھتے تھے بلکہ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ارباب دیانات میں سے کسی شخص نے ایسی مو¿ثرسیاست اختیارنہیں کی کہ جوآنجناب نے اختیار فرمائی۔ ان کا قصد سلطنت اور ریاست حاصل کرنے کا نہ تھا، صاف صاف اپنے ہمراہیوں سے فرماتے تھے کہ جو جاہ و جلال کی حرص وطمع میں میرے ساتھ جانا چاہتا ہے وہ ہم سے الگ ہوجائے۔ آپ نے بے کسی اور مظلومیت کواختیارفرمایا، حسینؑ کے واقعہ نے تمام وقائع پربرتری حاصل کرلی۔ حسینؑ کا واقعہ عالمانہ اورحکیمانہ اورسیاسی حیثیت کا تھا جس کی نظیر دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی۔
12 :- پروفیسربراو¿ن مصنف تاریخ ادبیات ایران
ایسا کوئی متنفس ہے کہ جو درددل رکھتا ہو اورپھرحالات کربلا کوپڑھ کر اس کا دل نہ پسیجے، بحیثیت مجموعی یہ کہا جاسکتا ہے کہ محرم کی عزاداری کے سلسلہ میں جوجزبات پیدا ہوتے ہیں خواہ شبیہیں دیکھنے سے ہوں یا نوحہ خوانی سے وہ نہایت کھرے اور سچے ہوتے ہیں اورغیرملکوں اور غیرمسلموں کو بھی ان کے مخلصانہ اور مو¿ثرہونے کا اعتراف کرنا پرتا ہے۔
13:- مسٹر والٹیر مشہورفرنچ اہل قلم
کربلا والے امام حسینؑ کے علاوہ دورتاریخ میں ایسی کوئی ہسٹری دیکھنے میں نہیں آئی جس نے بنی نوع انسان پرایسے مافوق الفطرت اثرات چھوڑے ہوں۔
14:- جرجی زیدان معروف مسیحی مو¿رخ
واقعہ کربلا ایک سانحہ عظیمہ ہے جس کی تاریخ عالم میں نظیر نہیں ملتی (غادہ کربلا)
اسی چودہ کے مبارک و مسعود عدد پراس سلسلہ مبارکہ کوختم کیا جاتا ہے۔ ورنہ سفینہ چاہیے اس بحربےکراں کےلئے
بنابریں حقائق امام حسینؑ کے فقیدالمثال کارنامہ کے متعلق بڑے فکروانبساط کے ساتھ کہا ہے کہ
انسانیت کے نام پہ کیا کرگئے حسینؑ ہردور کے بلند خیالوں سے پوچھ لو
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here