بےنظیر بھٹو کی برسی پر سیاستدانوں کی نسلوں کا اجتماع!!!

0
158

 

Ramzan Rana. Legal Analyst. M. A , LLB & LLM (USA

امسال پاکستان کے سیاستدانوں کی دوسری تیسری اور چوتھی نسلوں کا بےنظیر بھٹو شہید کی برسی پر بہت بڑا اجتماع ہوا انہوں نے محترمہ شہید کو خراج عقیدت پیش کرکے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف علم بغاوت بلند کیا کہ ہم جمہوریت کے خلاف سیاستدانوں کے قاتلوں، جمہوریت کے دشمنوں آئین شکنوں سے بدلہ لیں گے۔جس کا بےنظیر بھٹو شہید نے اپنی زندگی میں درس دیا تھا کہ جمہوریت سب سے بڑا بدلہ ہے کہ جب ملک میں جمہوریت بحال ہوگئی تو آئینی ادارے مضبوط ہوگئے۔تب غیر جمہوری طاقتیں کمزور پڑ جائیں گی۔جس کی آج پاکستان میں شدید ضرورت ہے۔بلاشبہ بھٹو خاندان نے آئین اور جمہوریت کے لیے بے تحاشہ قربانیاں دی ہیں کہ ہمیں بھی بھٹو سمیت پورا خاندان قتل کردیا گیا ہے۔جس کے قاتل آج بھی پاکستان میں دھن دھنانے پھر رہے ہیں۔جو کبھی بھٹو کو سولی پر چڑھا دیتے ہیں بےنظیر بھٹو کو قتل کردیتے ہیں۔نوازشریف کو جلاوطن کر دیتے ہیں جس کا سلسلہ بند کرنے کا وقت آپہنچا۔برسی پر نسلوں کے اجتماع میں بھٹو کے نواسے بلاول بھٹو،نواز شریف کی بیٹی مریم نواز،شاہ احمد نورانی کے صاحبزادے اویس نورانی، باچا خان کے پوتے ولی خان کے پوتے ایمل ولی، مفتی محمود کے پوتے اور مولانا فضل الرحمان کے بیٹے اسد رحمان عطا اللہ مینگل کے وارث اختر مینگل، غوث بخش بزنجو کے نواسے طاہر بزنجو اور باقی نسلیں موجود تھیں جن کے آب واجداد کے آپس میں ماضی میں اختلافات پائے گئے جس میں اسٹیبلشمنٹ کا بہت بڑا گھناﺅنا کردار رہا ہے جو بہت عرصہ سول حکومتوں کی توڑ پھوڑ میں شریک رہی ہے۔جس کا ادارک آج ان کی نسلوں نے محسوس کرلیا ہے کہ اس میں حقیقی جمہوریت کی بحالی کے لیے مشترکہ جدوجہد کی جائے گی جس سے ملک میں آپس کی نفرتوںکا خاتمہ ہوگاتاہم پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ نئی نسل نے اتحاد قائم کیا جس کا مظاہرہ بےنظیر بھٹو کی برسی پر نظر آیا جن کو غیر جمہوری اور غیر قانونی اور غیر آئینی طاقتوں نے پہلے اٹھارہ اکتوبر2007کو کراچی کا رسائی پر دہشت گردوں کے ہاتھوں حملہ کرایا جس سے محترمہ بال بال بچ گئیں جس میں سینکڑوں جمہوریت کے متوالے شہید اور زخمی ہوئے پھر محترمہ کو27دسمبر2007کو حملہ ہوا جس سے وہ نہ بچ پائیں۔قاتلوں نے جائے وقوعہ دھو دیا۔جائے وقوعہ کے گواہ افسران کے تبادلے کردیئے۔عدالتی کارروائیاں روک دی گئی۔کوئی پاکستان کا اعلیٰ کمیشن نہ بنا جج تحقیقات کرتا کہ حملہ آور کون تھے کن کے حکم پر حملہ ہوا حالانکہ محترمہ اپنی زندگی میں امریکی صحافی مارک سیگل کو اپنا بیان لکھوا کر چلی گئی تھیں کہ اگر مجھے مارا گیا تو میرے قاتل جنرل مشرف، جنرل گل حمید، بریگیڈیئر اعجاز شاہ اور پرویزالٰہی ہونگے۔مگر ان قاتلوں سے پوچھا تک نہ گیا۔بہرکیف اجتماع میں بےنظیر بھٹو کو عقیدت پیش کرنے پر موجودہ حکمرانوں خلاف بغاوت کا اعلان کیا گیا کہ جس کے لیے31جنوری2021کا دن جنرلوں کی سازشوں کو بے نقاب کیا جائے گا۔نیب کے کالے قوانین سے انحراف کیا گیا۔جی ایچ کیو پر دھرنے کی دھمکی دی گئی۔پی ڈی کا اتحاد مضبوط کیا جائے گا۔ماضی کی غلطیوں کا ازالہ کیا جائے گا۔پھانسیوں، گولیوں، دھماکیوں، کالی بھڑیوں کا مقابلے کیا جائے گا۔بےنظیر بھٹو کے اقوال پر عمل کیا جائےگا۔وغیرہ وغیرہ بہرکیف بےنظیر بھٹو شہید کی برسی کے اجتماع میں بہت زیادہ جوش وخروش پایا گیا ہے۔جو سخت سردی اور کورونا وبا کی شدت کے باوجود گڑھی خدا بخش کے مقام پر تو ڈیرہ کے مقام پر جمع ہوئے جو عام دنوں کی نسبت ہزاروں گنا زیادہ کامیاب شمار کیا جائے تو کوئی مبالغہ نہ ہوگا کہ سندھ کے عوام تمام تر خوف وہراس اس کے باوجود بےنظیر بھٹو کی طرح عقیدت پیش کرلیے جمع ہوئے جنہوں نے گھنٹوں شدید سردی کے باوجود پی ڈی ایچ کی قیادت کو غور سے سنا ملے جو 31جنوری کے لانگ مارچ کے لیے تیار پائے گئے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگر لاڑکانہ سے لاہور تک لوگ جمع ہوکر اسلام آباد کی طرف چل نکلے تو پنڈی اور اسلام آباد کے حکمرانوں، دربانوں اور نوجوانوں کو چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی جو لاکھوں میں کروڑوں میں مارچ کریں گے۔جن کے چولہے ٹھنڈے پڑ چکے ہیں جن کو کھانے پینے اور رہنے کی بنیادی سہولتوں سے محروم کر دیاگیا ہے۔بحرحال بھٹو خاندان کی شہادتوں سے یہ بات کھل کر عیاں ہوچکی ہے کہ سیاستدانوں قتل کے باوجود زندہ رہتے ہیں۔آج بھی قائداعظم محمد علی جناح،فاطمہ جناح، لیاقت علی خاں، زیڈ اے بھٹو، بےنظیر بھٹو، اکبربگٹی زندہ ہیں جبکہ ان کے قاتل جنرل ایوب خان، جنرل یحیٰی خان،جنرل ضیائ، جنرل مشرف کا نام ونشاں مٹ چکا ہے کہ آج کا جنرل مشرف میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ وہ پاکستان واپس آکر عوام کو اپنا گھناﺅنا چہرہ دیکھا پائے۔پاکستان کے دربانوں اور ایوانوں میں آج بے چینی پیدا ہوچکی ہے۔کہ ہم نے ایک نااہل اور ناجائز حکمران کو کیوں اقتدار پر بٹھایا جس نے ملک کوتباہ وبرباد کر ڈالا ہے۔کہ آج پاکستان دنیا سے کٹ چکا ہے۔جس کی سب سے مالی معاشی، سماجی حالت نہ قابل بیان ہوچکی ہے۔جو آج دنیا کے غریب ترین جنگ زدہ ملکوں میں شمار ہوتا ہے۔کہ جس کی کرنسی افغانستان سے بھی گر چکی ہے جس کا سرمایہ کار بیرون ملک بھاگ چکا ہے۔جس کی آمدن نہ ہونے کے برابر اور اخراجات بھاری ہیںجس کا خزانہ خالی پڑا ہوا ہے یہاں نہ سونا، چاندی اور نہ ڈالر پایا جارہا ہے جس کی ذمہ دار موجود اسٹیبلشمنٹ ہے جو ناقابل معافی کی حقدار ہے۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here