پی ڈی ایم کا غیر آئینی مطالبہ، فوج سے کہا جارہا ہے کہ جمہوری حکومت کو گرادے اور اگر آرمی چیف حکومت نہ ہٹائیں تو فوج آرمی چیف کو ہٹا دے۔ وزیراعظم نے اپوزیشن کی جانب سے فوج پر حملے کی مذمت کی اور کہا کہ اپوزیشن فوج کے خلاف جو زبان استعمال کر رہی ہے وہ بھارتی پروپیگنڈہ مشین استعمال کرتی ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے انفولیب کی حالیہ رپورٹ کا حوالہ بھی دیا۔ پاکستانی جمہوریت نادان بچہ ہے جسے پالنے میں رکھ کر پرورش کیا جاتا ہے لیکن جونہی وہ تھوڑا مضبوط ہوتا ہے پالنے سے گر کر چوٹ لگوا لیتا ہے۔ بابائے قوم نے جدید دنیا کے ترقی یافتہ نظام ہائے حکومت کا مطالعہ کیا اور اس کی روشنی میں آزاد ریاست کے لیے پارلیمانی جمہوری نظام کا انتخاب کیا۔ یہ نظام اس لحاظ سے فائدہ مند ہوتا ہے کہ ریاست کا ہر شہری کہیں نہ کہیں بااختیار ہوتا ہے اور اپنے اختیارات کو ریاستی آئین و قانون کے تابع رکھ کر استعمال کرنے کا سلیقہ سیکھ لیتا ہے۔ ہمارے ہمسایہ ملک بھارت اور بنگلہ دیش نے اس عوامی اختیار کو برتنے کا طریقہ سیکھا اور ان کے سیاسی نظام میں بدعنوانی‘ اقرباپروری اور رشوت کی شکایات کے باوجود جمہوری استحکام پروان چڑھتا گیا۔ ہم نے جمہوری روایات کا اہم عنصر یعنی اپنی باری کا انتظار کرنا بھی اہم نہیں سمجھا۔ 1970ءکے انتخابات کے وقت فوج اور اسٹیبلشمنٹ کو ایک اہم محاذ درپیش تھا۔ سیاسی گورننس تباہ ہونے اور بروقت مکالمہ نہ ہونے کا نتیجہ بہت برا نکلا۔ ملک دولخت ہوا لیکن سارا الزام ان سپاہیوں پر دھر دیا گیا جو ملک بچانے کے لیے جانیں قربان کر رہے تھے‘ دشمن نے جو پروپیگنڈہ کیا اسے جمہوری آزادی اور اظہار رائے کی آزادی قرار دے کر بعض سیاستدانوں نے اپنا لیا۔ ایوب خان‘ جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے طویل اقتدار کے بعد ہر بار سیاسی جماعتوں کو موقع ملا کہ وہ حقیقی جمہوریت کو فروغ دیں۔ اس کے لیے ضروری تھا کہ ملک کے ہر شہری کو بااختیاربنانے کی خاطر مقامی حکومتوں کا نظام مضبوط کیا جائے۔ صحت اور تعلیم پرسرمایہ کاری کی جائے‘ پیشہ وارانہ تربیت کے ادارے قائم کئے جائیں‘ شہریوں کو قانون کا پابند بنانے کی کوشش کی جائیں اور پارلیمانی جمہوریت میں شہری کے آئینی فرائض سے متعلق آگاہی مہم کا آغاز ہوتا۔ جب یہ سب نہیں ہوا تو پورا معاشرہ فکری جمود کا شکار بن گیا۔ ایسا منجمد اور غیر فعال سماج حالات کو جوں کا توں رکھنے والی قوتوں کے مقاصد کی تکمیل کا ذریعہ ہوتا ہے۔وطن عزیز میں سیاسی جماعتیں خاندانی مفادات کا تحفظ کرنے والے گروہ بن کر رہ گئی ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی حیثیت ان کے منشور‘ داخلی جمہوری اقدار پر عمل اور ہر حال میں آئین کے تحت حکمت عملی سے طے ہوتی ہے‘ الیکشن کمیشن ایک ریگولیٹری ادارے کے طور پر سیاسی جماعتوں کے معاملات دیکھتا ہے۔ آئین میں جس طرح یہ نظام وضع کیا گیا وہ قابل تحسین ہے مگر اس نظام کے آئینی تقاضے بھی پورے نہیں کئے گئے۔ سیاسی جماعتوں کی قیادت مرتے دم تک ایک فرد کے پاس رہتی ہے‘ موت کے بعد اس کی اولاد لیڈر بن جاتی ہے۔ سیاسی جماعتوں میں عہدوں کے لیے انتخاب نہیں ہوتا‘ نامزدگی کا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔ یعنی جو زیادہ چاپلوس وہ قیادت کی نظر میں زیادہ اہم۔ سیاسی جماعتوں کے اثاثے اور فنڈز متنازع طریقہ کار سے اکٹھے ہوتے ہیں۔ ان حالات میں جمہوریت کا مطلب صرف اپنے اقتدار کے راستے میں حائل رکاوٹیں دور کرنا رہ جاتا ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن 35 سال سے اقتدار کا حصہ رہی ہیں‘ اب بھی کسی نہ کسی سطح پر یہ اقتدار میں حصہ دار ہیں۔ دونوں جماعتوں نے 2006ء میں لندن میں میثاق جمہوریت پر دستخط کرتے وقت عہد کیا تھا کہ وہ ایک دوسرے کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے کسی غیر آئینی طریقہ کار کو بروئے کار لائیں گے نا فوج سے مداخلت کا کہیں گے۔ اس عہد نامے میں اقرار کیا گیا کہ دونوں جماعتیں ہر حال میں آئینی و جمہوری اقدار کی پاسداری کریں گی۔ 2008ءمیں جب پیپلزپارٹی اقتدار میں آئی تو اس نے کافی حد تک جمہوری روایات کا احترام کیا لیکن مسلم لیگ ن اور اس کے قائد بطور اپوزیشن اپنے عہد پر قائم نہ رہ سکے اور فوج کو مسلسل مداخلت کی شہہ دیتے رہے۔ پی ٹی آئی ایک سیاسی حقیقت ہے جسے ن لیگ اور پی پی فوج کی سلیکٹڈ جماعت کا طعنہ دے کر کروڑوں افراد کے مینڈیٹ کی مسلسل توہین کر رہی ہیں۔ پی ڈی ایم کے جلسوں میں جمہوریت کے متعلق تو کوئی قابل ذکر بات نہ ہوئی بس حکومت کو ہٹانے اور فوج کوبرا بھلا کہنے پر زور رہا۔ یہ سیاست ہے نہ جمہوریت بلکہ فاشزم ہے جو صرف چند خاندانوں کے لیے ریاست سے ریلیف کا مطالبہ کرتا ہے۔ وزیراعظم نے درست نشاندہی کی کہ اپوزیشن اگر منتخب حکومت کی بجائے اداروں سے مذاکرات کی ضد کرے تو اس کا یہی مطلب ہے کہ وہ حکومت کو حاصل پانچ سالہ مینڈیٹ کو نظر انداز اور میثاق جمہوریت میں کئے گئے عہد کو توڑ کر غیر آئینی طریقے سے حکومت کو گھر بھیجنا چاہتی ہے۔ پاک فوج اس وقت بھارت‘ افغانستان‘ اسرائیل اور امریکی ایجنسیوں سے نبرد آزما ہے۔ اپوزیشن کو ہوش سے کام لیتے ہوئے یہ خیال رکھنا ہو گا کہ وہ سیاسی مفادات کے پیچھے دوڑتے دوڑتے کہیں قومی سلامتی کے خلاف سرگرمیوں میں نہ الجھ جائے۔
٭٭٭