قومی اسمبلی میں لیڈر آف دی اپوزیشن اور مسلم لیگ ن کے صدر میاں شہباز شریف کو لاہور ہائی کورٹ سے عبوری ضمانت کی درخواست خارج ہونے پر نیب حکام نے گرفتار کر لیا ہے۔ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب پر منی لانڈرنگ کے الزامات ہیں۔ نیب کی جانب سے شہباز شریف کے خلاف منی لانڈرنگ اور آمدنی سے زائد اثاثوں کا مقدمہ درج کیا گیا جس پر انہوں نے لاہور ہائی کورٹ سے عبوری ضمانت حاصل کر رکھی تھی۔گزشتہ ہفتے کے دوران شہباز شریف کی عبوری ضمانت میں تین بار توسیع دی گئی۔ قومی سیاست میں نمایاں حیثیت کی مالک متعدد شخصیات مالیاتی جرائم میں ملوث رہی ہیں۔ عالمی سطح پر منی لانڈرنگ میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کے لئے پاکستان جیسے ممالک پر دباﺅ بڑھ رہا ہے۔ مہذب دنیا منی لانڈرنگ کو ایک سنگین جرم تصور کرتی ہے اور ایسے جرائم میں ملوث افراد کے خلاف قانون حرکت میں آتا ہے۔پاکستان فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی نگرانی میں ہے اور اصلاحات متعارف کروا رہا ہے جن سے کوئی پاکستانی شہری اس جرم کا ارتکاب نہ کر سکے،ابھی چند ہفتے قبل پارلیمنٹ نے اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ منظور کیا ہے۔عالمی سطح پر منی لانڈرنگ کو قانون شکن افراد کا متوازی نظام مالیات کہا جاتا ہے۔ دستیاب ریکارڈ کے مطابق یہ ایک مذاق سے کم نہیں کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی سربراہی کرنے والے خاندان بلا خوف اس طرح کی سرگرمیوں میں ملوث رہے۔کیا یہ محض ایک اتفاق ہو سکتا ہے کہ اپوزیشن نے حکومت مخالف مہم ان ایام میں شروع کرنے کا فیصلہ کیاگیا جب نیب اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کی تحقیقات انجام تک پہنچ رہی تھیں اور متعدد سیاستدانوں کی گرفتاری کا امکان دکھائی دینے لگا تھا۔ رواں سال اٹھارہ اگست کوقومی احتساب بیورو (نیب) نے احتساب عدالت میں قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف، ان کے دو بیٹوں اور کنبے کے دیگر افراد کے خلاف منی لانڈرنگ کا 8 ارب روپے کا ریفرنس دائر کیا۔ریفرنس میں مجموعی طور پر 20 افراد کو نامزد کیا گیا جن میں یاسر مشتاق، محمد مشتاق، شاہد رفیق اور آفتاب محمود شامل تھے۔مرکزی ملزمان میں شہباز شریف کی اہلیہ نصرت شہباز، ان کے بیٹے اور پنجاب میں قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز اور سلیمان شہباز (مفرور)، بیٹیاں رابعہ عمران اور جویریہ علی شامل ہیں۔دیگر ملزمان میں مبینہ طور پر بے نامی دار اور خاندان کے کاروباری شراکت دار ہیں جن میں نثار احمد، قاسم قیوم، راشد کرامت، مسرور انور، فضل داد عباسی اور شعیب قمر شامل ہیں۔ریفرنس میں بنیادی طور پر شہباز شریف پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ اپنے کنبے کے اراکین اور بے نامی دار کے نام پر رکھے ہوئے اثاثوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں جن کے پاس اس طرح کے اثاثوں کے حصول کے لیے کوئی وسائل نہیں تھے۔ شہباز خاندان کے کنبے کے افراد اور بے نامی داروں کو اربوں کی جعلی غیر ملکی ترسیلات ان کے ذاتی بینک کھاتوں میں ملی ہیں۔ریفرنس میں کہا گیا ہے کہ ملزمان نے بدعنوانی اور کرپٹ سرگرمیوں کے جرائم کا ارتکاب کیا جیسا کہ قومی احتساب آرڈیننس 1999 کی دفعات اور منی لانڈرنگ کے تحت منی لانڈرنگ ایکٹ 2010 میں درج کیا گیا تھا اور عدالت سے درخواست کی گئی کہ انہیں قانون کے تحت سزا دے۔نیب نے شریف خاندان کے چیف فنانشل آفیسر محمد عثمان پر شہباز شریف خاندان کی جانب سے کی گئی منی لانڈرنگ میں کردار ادا کرنے کا الزام بھی عاید کیا ہے۔قومی احتساب بیورو کا کہنا ہے کہ ملزم کو شہباز خاندان کی آمدنی کے معلوم ذرائع سے غیر منقسم لانڈرنگ فنڈز کے نیٹ ورک کا انتظام کر کے مدد فراہم کی گئی، اس میں کہا گیا تھا کہ ملزم 2005 میں شریف گروپ کمپنیوں میں شامل ہوا تھا اور وہ شہباز شریف، حمزہ اور سلیمان کی ہدایت پر منی لانڈرنگ کے منظم نظام کو سنبھال رہا تھا۔ عثمان اپنے مختلف ملازمین کے ناموں پر رکھے گئے ملزمان کے پراکسی بینک اکاو?نٹ چلانے کے ذریعے سیاسی خاندان کے نامعلوم فنڈز جمع کرنے میں بھی ملوث تھا۔ دو روز قبل اپوزیشن نے گلگت بلتستان میں انتخابی اصلاحات پر پارلیمانی رہنماﺅں کے اجلاس کا بائیکاٹ یہ کہہ کر کیا کہ حکومت کشمیر کاز سے جڑے معاملے پر سیاست کر رہی ہے۔ایسا کرتے ہوئے یہ فراموش کر دیا گیا کہ ریاستی مفادات کے تحفظ اور فیصلوں کے وقت کا تعین حکومت کی ذمہ داری ہوتا ہے۔ ممکن ہے جس معاملے کو اپوزیشن رہنما سیاست کی نذر کر رہے ہیں اس سے مستقبل میں اہم تزویراتی حکمت عملی وابستہ ہو‘ یہ بات خاصی مضحکہ خیز ہو گی کہ شہباز شریف کو گلگت کے معاملے پر اختلاف کے باعث گرفتار کیا گیا۔ اپوزیشن رہنماﺅں اور مسلم لیگ ن کے لوگوں کا ردعمل ظاہر کرتا ہے کہ ایک قانونی عمل جس کے شواہد نیب کے پاس ہیں اسے سیاسی انتقام بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ریاست پاکستان سی پیک کو محفوظ بنانے کے لئے جن مختلف پہلوﺅں پر کام کر رہی ہے ان میں سے ایک یہاں انتخابی اصلاحات ہے۔ اپوزیشن جماعتیں اس معاملے کو ہنگامہ آرائی اور بائیکاٹ کی نذر کر کے ہرگز قومی خدمت انجام نہیں دیں گی۔ رہی بات شہباز شریف کی گرفتاری کی تو اب پاکستانی نظام کو اس قدر باشعور ضرور ہو جانا چاہیے کہ کسی جرم کے ارتکاب پر ملزم کی بے جا حمایت کا سلسلہ ختم کر دیا جائے۔بہتر ہو گا کہ ایک قانونی عمل کو سیاسی ہنگامے کی نذر کرنے کی بجائے گرفتار سیاستدان عدالتوں میں خود کو بے گناہ ثابت کریں۔
٭٭٭