اسلام آباد:
گذشتہ ہفتے انڈونیشیا کی پارلیمان نے تاریخی قوانین منظور کرتے ہوئے زرعی مارکیٹ پر حکومتی کنٹرول کم کردیا، اپنی غذائی تجارت کھول دی اور اس میں نجے شعبے کا کردار بڑھا دیا۔ انڈونیشیا کی طرح پاکستان بھی گنجان آباد ملک ہے اسی لیے زرعی پالیسیوں کا کسانوں اور عوام کے لیے غذائی تحفظ ( فوڈ سیکیورٹی ) پر گہرا اثر پڑتا ہے۔
انڈونیشیائی پارلیمان کے منظور کردہ نئے قوانین کے تحت کسانوں کو سپورٹ اور مقامی زرعی پیداوار کو بڑھانے کے لیے درآمدات پر پابندیاں نرم کردی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ درآمداتی زرعی اجناس پر سے جرمانے ختم کردیے گئے ہیں گرچہ ملکی ضروریات کے لیے کافی اسٹاک ہی موجود کیوں نہ ہو۔ انڈونیشیا نے اب ہارٹیکلچر، لائیواسٹاک اور جانوروں کی مصنوعات کی درآمد کی بھی اجازت دے دی ہے۔ ان قوانین کے نفاذ کے بعد غیرملکی سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی ہوگی اور انڈونیشیائی عوام کو روزگار کے نئے مواقع بھی میسر آئیں گے۔
پاکستان کو بھی انڈونیشیا سے سبق لیتے ہوئے قوانین پر نظرثانی کرنی چاہیے۔ رواں سال میں پاکستان نے پہلے گندم کو اضافی خیال کرتے ہوئے برآمد کردیا اور پھر قلت ہونے پر گندم درآمد کی جارہی ہے۔ ٹریڈنگ کارپوریشن تین بار ٹینڈر جاری کرنے میں ناکام رہی۔
اس دوران گندم کی عالمی قیمتیں اوپر چلی گئیں۔ یہ بھی خبریں ہیں کہ سرکاری گوداموں میں موجود گندم بھی اجرا کے لیے حکومتی اجازت کی منتظر ہے۔ کسانوں کیلیے گندم کی امدادی قیمت مقرر کرنے سے لیکر اس کی خریداری، ذخیرہ کاری، خریدوفروخت، اور ذخائر کے ریلیز ہونے تک ہر مرحلے پر حکومتی اجازت درکار ہوتی ہے تو پھر مافیا کو الزام دینے کی کیا ضرورت ہے؟ اس پورے عمل میں وزارتیں اور بیوروکریسی ملوث ہوتی ہے جو غلطیاں کرتی ہے۔ حکومت کا خیال ہے کہ کسانوں اور صارفین کے تحفظ کیلیے یہ سخت کنٹرول برقرار رکھنا ضروری ہے۔ مگر یہ خیال غلط ہے۔ بیوروکریسی اور سیاستدانوں کے بجائے کسانوں اور صارفین کو فیصلوں کا اختیار دے دینا چا ہیے۔