امریکی صدارتی انتخاب یا انقلاب!!!

0
129

Ramzan Rana. Legal Analyst. M. A , LLB & LLM (USA

اگرچہ آغاز میں امریکی انتخاب میں صرف وہ مرد ووٹ دے سکتے تھے جو زمین کے مالک ہوا کرتے تھے جس میں بے زمین یاسیاہ فام اور خواتین شامل نہ تھیں کیونکہ سیاہ فاموں کو 1864ءاور خواتین کو 1920ءمیں ووٹ دینے کا حق دیا گیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب امریکی صدور کے پاس غلام بطور ذاتی ملکیت ہوتے تھے جس طرح کسی کے پاس جانور، جائیداد کا حصہ ہوتے ہیں مگر موجودہ صدی میں امریکی صدارتی انتخاب یا انقلاب بن کر سامنے آیا کہ جب ایک سیاہ فام مسلم نسل کا فرد بارک حسین اوبامہ کو امریکی عوام نے دو مرتبہ صدر منتخب کیا، یا پھر آج پہلی مرتبہ امریکی خاتون اور سیاہ فام ساﺅتھ ایشین خاتون کمیلا ہیرس کو ناب صدر منتخب ہو چکی ہیں جن کے والد جمیکن سیاہ فام اور والدہ بھارتی نژاد امریکن تھیں جن کی و جہ سے کمیلا دیوی ہیرس کا والد عیسائی والدہ ہندو مت اور شوہر یہودی مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں جن کا تعلق نیو امیگرنٹس سے ہے آج وہ پسے ہوئے غلاموں کی نسلیں حکمران بن چکی ہیں جو جمہوری انقلاب کا حصہ ہے جس سے امریکہ بدل رہا ہے جس کی وجہ سے آج امریکہ سفید فاموں اور رنگداروں میں تقسیم ہوتا نظر آرہا ہے۔ تاہم آخر کار امریکی انتخابات کا خاتمہ ہوا جس میں ڈیمو کریٹ پارٹی کو صدر، نائب صدر، کانگریس میں برتری حاصل رہی ہے جبکہ تازہ رپورٹس کے طمابق سینیٹ برابر برابر ہو چکی ہے صدارتی انتخاب میں ایک سو پچاس ملین لوگوں نے ووٹ ڈالے جو امریکی آدھی آبادی، آدھے یورپ پاکستانی بھارتی پنجاب اور افریقہ کی آدھی آبادی کے برابر ہے۔جس کا آغاز کرونا وباءکی وجہ سے چند ہفتوں پہلے ووٹنگ کا سلسلہ جاری تھا جس میں لوگوں نے لمبی لمبی قطاروں میں کھڑے ہو کر ارلی ووٹنگ میں حصہ لیا جن کی تعداد 95 ملین پیشگی ووٹنگ اور 65 ملین پوسٹ آفس میل ووٹرز تھے جو امریکی تاریخ کا واحد انتخاب ہے کہ جس میں کرونا وائرس کے باوجود اتنی بڑی تعداد میں امریکی شہریوں نے ووٹنگ میں حصہ لیا جن کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ فراڈ، دھاندلی اور نہ جانے کون کون سے الزاموں سے تشبیہ دے رہے ہیں حالانکہ بعض ریاستوں نے میل کی ووٹنگ کی گنتی بھی میل وصول کرنے کےساتھ ساتھ کرلی تھی مگر سات ریاستیں ایسی تھیں جنہوں نے میل بکس کی ووٹنگ کی گنتی تین نومبر کی رات کو شروع کی تھی جس کی وجہ سے الیکشن کے بعد چند روز تک گنتی جاری ر ہی ہے جس میں صدارتی امیدوار جوبائیڈن پاپولر اور الیکٹورل ووٹوں میں جیت چکے ہیں جنہوں نے تقریباً پانچ ملین زیادہ پاپولر ووٹ اور 309 الیکٹورل ووٹ حاصل کئے ہیں جن کا آخری معرکہ 4 دسمبر کو ہوگا جب وہ ریاستوں کی نامزدگی کی بطور الیکٹورل نائب صدر مارک پن کو اپنے اپنے سرٹیفکیٹ پیش کرینگے جس کے بعد نائب صدر، دو کانگریس مین اور دو سینیٹرز کے الیکٹورل ووٹ حوالے کرینگے جو نئے صدر کے انتخاب کا اعلان کرینگے جس کے بعد بیس جنوری 2021ءکو دوپہر ایک بجے صدر ٹرمپ کو وائٹ ہاﺅس خالی کرنا پڑے گا اگر انہوں نے خالی نہ کیا تو یو ایس مارشل گھر اور آفس خالی کرانے کا اختیار رکھتا ہے کیونکہ 20 جنوری 2021ءکو دوپہر ایک بجے کے بعد صدر ٹرمپ ایک عام شہری کی شکل اختیار کر جائے گا جن پر دیر تک قیام کرنے پر ٹریس پاسنگ کا مقدمہ بھی بن سکتا ہے۔ بہر کیف صدر ٹرمپ نے چند ریاستوں میں انتخابات میں بے قاعدگیوں بارے میں پٹیشن د ائر کی تھیں جس کو ریاستی عدالتوں نے بے بنیاد سمجھ کر رد کر دیا ہے اب وہ اپیل کیلئے امریکہ کی عدالت عظمیٰ میں پہنچے ہیں جو شاید 200-ءکے انتخاب میں از سر نو گنتی کا جواز بنا کر موجودہ نتائج کو چیلنج کر رہے ہیں جبکہ الگور اور ٹرمپ کی درخواستوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے الگور فلوریڈا میں انتخابی مشینوں کی خرابی کی وجہ سے غلط گنتی کا جواز بنا کر فلوریڈا کی سپریم کورٹ میں گیا تھا جس کو مقامی عدالت نے جائز قرار دیا تھا مگر امریکی سپریم کورٹ نے عدالتی فیصلے کور د کرتے ہوئے از سر نو گنتی کو روک کر جارج بش کو صدر بننے کا سرٹیفکیٹ جاری کر دیا جو کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ متنازعہ بن گیا مگر ٹرمپ کے پاس کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہے جو صرف ریاستوں کی قانونی گنتی کو چیلنج کر رہے ہیں جس میں انہیں شاید ناکامی ملے، مزید برآں گزشتہ اور موجودہ صدارتی انتخابات میں الیکٹورل نظام غیر جمہوری ثابت ہوا ہے کہ 2016ءمیں ہیلری کلنٹن نے 3 ملین اور آج جوبائیڈن نے پانچ ملین زیادہ ووٹ لئے ہیں جس کے باوجود ہیلری صدر نہ بن پائیں تھیں لیکن جو بائیڈن بن گئے اگر وہ نہ بنتے تو پانچ ملین زیادہ ووٹ کی کوئی وقت نہ ہوتی جو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیئے جاتے۔
بہرحال موجودہ انتخاب میں انسانیت کی جیت اور شیطانیت کی ہار ہوئی ہے جس میں ٹرمپ جو فاشزم کا شکار، نسل پرستی کا پرچار، بُری طرح ناکام ہوا ہے جو گزشتہ پانچ سالوں سے اپنائے ہوئے تھا جو اپنے پیرو کاروں کو ہٹلر نماغیر انسانی اور غیر اخلاقی حرکات و سکنات کا درس دے رہا تھا۔ جس نے مسلمانوں کےخلاف ایگزیکٹو آرڈرز اور لاطینوں کےخلاف دیوار نفرت اور امریکی اقلیتوں کےخلاف حقارتوں کا طوفان برپا کر رکھا ہے جس کا خاتمہ آسان نظر نہیں آرہا ہے جو شاید آئندہ وقتوں کیلئے اپنے رویوں کو برقرار رکھ کر امریکہ میں نسل پرستی کو فروغ دے گا جس کا فائدہ آئندہ انتخاب میں پھر استعمال کرکے اپنی اولاد میں سے کسی کو صدارتی امیدوار بنائے گا جس کے بعد دو سو سالہ پرانی ریپلکن پارٹی کا خاتمہ ہو کر نازی پارٹی بنتی ہوئی نظر آرہی ہے جو جرمن کی طرح امریکہ کو زوال پذیری کی طرف دھکیل دے گا جس کی وجہ سے پوری دنیا خائف ہے یہی وجوہات ہیں کہ دنیا بھر کی مہذب اور جمہوری ریاستوں کی قیادت صدر ٹرمپ سے خوش نہیں ہے جن سے انسانیت کو خطرات لاحق ہو چکے ہیں جس کے خاتمے کیلئے ڈیمو کریٹ کے منتخب صدر جوبائیڈن کو پورا امریکہ متحد اور منظم کرنا پڑے گا تاکہ دوبارہ کوئی خانہ جنگی نہ چھڑ جائے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here