شبیر گُل
25 دسمبر کرسچن کا سب سے بڑا مذہبی تہوار ہے۔ جو پوری دنیا میں عقیدت سے منایا جاتا ہے۔ اسی دن بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کا یوم ولادت بھی ہے۔ قائد اعظم جیسے لیڈروں کے مداح آج بھی انڈیا میں موجود ہیں۔
ہمارے بہت ہی پیارے دوست سید شیخ رحیم اللہ جن کا تعلق حیدرآباد (انڈیا) سے ہے۔ ہر سال اپنے گھر پر قائداعظم ، علامہ اقبال کا یوم ولادت اور چودہ اگست کا جشن آزادی انتہائی شان و شوکت سے مناتے ہیں۔ جو اکثر کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے عظیم لیڈروں کی قدر نہیں کی اگر ہم قائد اعظم سے محبت کرتے تو آج پاکستان اسلامی ریاست ہوتا۔ حالانکہ قائداعظم کے فرمان کے مطابق پاکستان کی بنیاد کلمئہ طبیبہ تھا۔قائد نے سب سے پہلی وزارت ،مذہبی امور کی بنائی تھی تاکہ پاکستان کو ایک اسلامی مملکت کی راہ پر چلایا جا سکے۔ اسکا دستور اور اسلامی آئین بنایا جاسکے لیکن قائداعظم کی وفات کے ساتھ ہی ہم اپنی نشان منزل سے دور ہوگئے۔ جس کے لئے قربانیاں دیں اور خون کا دریا عبور کرکے عظیم ملک حاصل کیا۔ جسے گزشتہ ستر سال سے گدھ نوچ رہے ہیں۔ ہماری اسلامی، اخلاقی، معاشرتی روایات بدل دی گئیں۔ تہذیب وتمدن بدل گئیں۔ مشرقی روایات کی جگہ مغربی روایات نے لے لیں۔
ہمارا المیہ ھے! کہ جن مغربی تہذیب کی چکاچوند نے ہمیں مرعوب کیا۔ اسکی رو میں بہہ گئے ہیں۔ ہماری اخلاقی روایات کا جنازہ نکل چکا۔اپنے وطن اور دیار غیر میں بھی ہماری مساجد کا حال روایتی فرقہ پرستی، تنگ نظری اور رجعت پسندی کے حول میں مقید ہے۔ یا تو ہم بہت extremists ہیں یا پھر بہت ہی لبرل۔ ہمارے کپڑوں کا ڈھنگ مغربی تہذیب و تمدن کا آشکارا ہے۔ ہمدو تہذیبوں کے درمیان اٹکے ہیں۔ نہ ادھر کے رھے نہ ا±دھر کے۔ آدھا تیتر آدھا بٹیر کے مصداق۔ نہ وصال ملا نہ وصال صنم۔
قارئین محترم !ہم جس جعلی Legacy کو اٹھائے پھرتے ہیں، ا±س کا دھڑن تحتہ ہونے سے پہلے آنکھیں کھولنی چاہیں۔. وگرنہ ہمارے گھروں میں بھی ٹام،جان ،جولی اور رابرٹ پیدا ہو سکتے،ہمارے دوست شیخ رحیم اللہ صاحب جہاں کام کرتے تھے، آسکر ایوارڈ یافتہ معروف اداکارہ جولیا رابرٹ اور سکرپٹ رائٹر لین شیوازبیک جنہوں نےAs good as it gets” 1997 میں فلم بنائی۔اس فلم کو کئی ایوارڈ ز ملے ، آسکرایوارڈ بھی ملا۔ا±ن کا ا±س آفس میں آنا جانا تھا۔ ا±نہیں فلم کے اسکرپٹ رائٹر نے فلم کےاسکرپٹ کے پیپرز تھما دئیے۔فلم اخلاقی گراو¿ٹ سے بھر پور تھی جس میں بیسیوں بار ایف کا لفظ استعمال ہوا۔اوربیشمار ایسی فلمیں جن میں بوس وکنار ،اخلاقی گراو¿ٹ اور انسانی پستی کی عمیق دلدل دکھائی جاتی ہے۔ آسکر ایوارڈ پاتی ہیں۔ مغربی تہذیب اور معاشرت کی گہرائی میں جائیں تو بے حیائی کے علاوہ کچھ نظر نہیں آئے گا۔ہماری اخلاقی قدریں تباہ کرنے کے لئے ایسی اخلاق باختہ فلمیں اور ڈرامے پاکستان میں بھی دکھائے جاتے ہیں۔
امریکہ کے سب سے معروف صدر جان ایف کینڈی نے کرائسس کے دنوں میں قائداعظم کی تقریر کے وہ الفاظ دہرائے جو قائداعظم محمدعلی جناح نے جو پاکستان بننے پر تقریر کی تھی۔لیکن ہمنے اپنے بانیان کی قدر نہیں کی۔ہم اپنی جھوٹی انا ،جھوٹی چودھراہٹ ،برادری ازم اور نوجوان نسل کو اخلاقی رواداری اور نظریات سے دور کررھے ہیں۔ جٹ ،آرائیں، بٹ،راجے، چوہدری ، کشمیری ،مہاجر اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجد سجائے بیٹھے ہیں۔گزشتہ ایک سال کرونا نے میلے ٹھیلے اور کمﺅنٹی پروگرامز بند کردئیے۔ مساجد میں ایس او پیز کی وجہ سے نمازیوں کی تعداد میں کمی ہوئی ہے۔ کمﺅنٹی لیڈرز ، مساجد انتظامیہ اور امام خضرات نے کرونا سے نمٹنے کی آگاہی کا کوئی پروگرام م±رتب نہیں کیا، جس سے لوگ استفادہ حاصل کرسکتے۔مفتی، علامہ ، پیر، اور دو دو فٹ لمبے ناموں والے مولوی خضرات کہیں نظر نہیں آئے۔ تعلم یافتہ نہ ہونے کہ وجہ سے لوگوں کو کرونا جیسی مہلک بیماریوں سے نمٹنے کے لئے ہدایات فراہم نہ کرسکے۔جو سنگین المیہ ہے۔
ہم مغربی تہذیب و تمدن ،اخلاقیات کی مثال دیتے آئے ہیں۔ لیکن اپنی عادات اور طرز زندگی پر کوئی دھیان نہیںجنکی اخلاقیات کاجنازہ نکل چکا ہے۔ ہماری موجودہ نسل بھی اسی اخلاقی بے راہ روی کے راستے پر چل نکلی ہے۔ ہمیں اپنی جھوٹی اناو¿ں کو قربان کرکے مساجد کو کمیونٹی سینٹرز کی شکل دیناچاہئے۔ بچوں کو دین کے ساتھ ، تفریحی سرگرمیاں فراہمکی جائیں۔ سوشل ایکٹیوٹیز میں شمولیت سے ہے بچوں اور بڑوں میں رابطہ بڑھے گا۔ جس جا بہت فقدان ہے۔ ہماری نوجوان نسل کا رابطہ اپنے اسلامی ،ثقافتی، کلچرل سینٹرز سے ممکن بنانا چاہئے۔ تاکہ نوجوانوں کے اپنے سینٹرز میں آنے جانے سے اسلامی کلچر سے تعارف ہو سکے۔
مساجد کونماز کے علاوہ اسلامی کمیونٹی سینٹر کی طرز پر بنایا جائے جہاں۔ غریبوں کے کھانے کا انتظام موجود ہو۔ ڈپریشن میں الجھے لوگوں کی رہنمائی (counseling) ہو۔خاندانی جھگڑے سلجھانے کا انتظام ہو۔ہمیں چاہئے کہ گھروں کا فالتو سامان مسجد کو عطیہ کریں ، پ±رانی گاڑی مسجد کو ڈونیٹ کریں۔تاکہ اس سے ضرورت مندوں کی مدد کی جاسکے۔
* سنڈے ا سکولز کا اہتمام کیا جائے تاکہ فیملیز آپس میں بچے اور بچیوں کے رشتے طےکرنے کیلی? ایکدوسرے کو سمجھ سکیں۔
نکاح اور شادی سادگی کے ساتھ مساجد میں کیے جانے کو ترجیح دی جائے۔
کرونا وائرس جیسی قدرتی آفات سے ہونے والے نقصان کے ازالہ کیلئے اجتماعی کوششوں کا آغاز مساجد سے ہونا چاہئے۔ جیسے ہم نے اکنا ریلیف کے پلیٹ فارم سے لوکل مساجد کو ہفتہ وار فوڈ فراہم کیا تاکہ لوکل آبادی کو ریلیف فراہم کیا جاسکے۔
مساجد میں دینی تعلیم کے ساتھ دنیاوی تعلیم اور خاص طور پر سائنسی تعلیم کا بھی اہتمام کرنا چاہئے۔
لوکل آفیشلز سے تعلق اور رابطے بڑھانے چاہیں تاکہ ضرورت مندوں کے لئے جابز creations میں مدد فراہمکی جاسکے۔جیسے سٹی کی کسی بھی نئی آسامی کے موقع پر بنگلہ کمﺅنٹی کی لیڈر شپ تقریباً پچھتر ہزار افراد کو چند ہی لمحوں میں نئی جاب کا میسج پہنچا دیتی ہے۔ اسی لئے آج بنگلہ دیش ہم سے آگے ہے۔
ہمیں مساجد میں ایک لائبریری قائم کرنی چاہئے۔جہاں پر مکمل اسلامی و عصری کتب مطالعے کیلیے دستیاب ہوں، الحمد للّٰہ
ہمارے درمیان باصلاحیت افراد کی کمی نہیں بیشمار پروفیسرز اور ٹیچرز مفت ٹیوشن سروس فراہمکرنے کو تیار ہیں۔
ہمیں اپنے اندر عوامی فلاح و بہبود کی سوچ والے لوگ پیدا کرنے چاہیں۔تاکہ کسی بھی مشکل میں کمﺅنیٹی کو مدد فراہمکی جاسکے۔
خدارا آئیے اپنی ترجیحات بدلئے۔
1400 سال پہلے دور نبوی کے مدینہ میں ایسی ہی سوسائٹی قائم ہوئی تھی جس نے تھوڑے ہی عرصہ میں چھبیس لاکھ مربع میل پر حکومت کی۔
قارئین !جیسے ہی ہم نے ان شاندار روایات کو چھوڑا ہم اخلاقی بربادی کی طرف بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ ہمیں ملکر اپنا جائزہ لینا ہے کہ ہم کیسے کھوئی ہوئی منزل حاصل کر سکتے ہیں جو مسلمانوں کی نشان منزل بھی ہے۔ نشاط ثانیہ بھی۔
٭٭٭