کرونا وائرس اور ویکسین!!!

0
159
رعنا کوثر
رعنا کوثر

 

رعنا کوثر

ابھی تک تو ہر ایک کا موضوع گفتگو کرونا وائرس اور اس کے مضر اثرات تھامگر اب موضوع بحث اس وقت لگنے والی ویکسین ہے۔ایک وقت تھا کہ سب کو ویکسین کا انتظار تھا یہ کب بنے گی۔کب سے لگنا شروع ہوگی۔کبھی کوئی بنائے گا بھی کے نہیں۔اس طرح کے سوالات ہر ایک کے ذہن میں تھے اور ایک بے چینی تھی کے اس بیماری کا کوئی توڑ نکلے۔اب جب کے ویکسین نکل چکی ہے اور لوگوں کو لگنا شروع ہو گئی ہے تو ایک نیا موضوع سب کے پاس آگیا ہے اور لوگ اس بحث میں اُلجھ گئے ہیں کہ ویکسین لگوائیں کے نہیں لگوائیں۔اس بحث کی بہت ساری وجوہات ہیںجو مختلف افواہوں کے ساتھ سوشل میڈیا پر شائع ہو رہی ہیں اور لوگوں کو خوف زدہ کر رہی ہیںحالانکہ جن لوگوں کو بھی یہ ویکسین لگی ہے ابھی تک چند لوگوں کو ہی اس کا کوئی بہت زیادہ اثر سامنے آیا ہے۔ورنہ ہر کوئی اطمینان سے ویکسین لگا کر اپنے گھر روانہ ہو رہا ہے۔اس میں نوے سال کے بوڑھے بھی ہیں۔نوجوان بھی ہیں۔وہ بھی ہیں جن کے ہاں جلوہی بچوں کی ولادت ہونی والی ہے اور وہ بھی جو بلڈپریشر شوگر کے مریض ہیں ،اس لیے ویکسین کے بیرونی اثرات تو ٹھیک ہیں۔اب رہی یہ بات کے اندرونی طورپر یہ ویکسین ہم کو بہت نقصان پہنچائے گی تو جیسا کے میں نے ان لوگوں سے پوچھا جو اس کے بارے میں کافی معلومات کر رہے ہیں۔پڑھ رہے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ یہ ویکسین چونکہ بہت نئی ہے اس لیے سب جھجک رہے ہیں۔اور بہت جلدی میں بنائی گئی ہے۔اس لیے سب کو ڈر لگ رہا ہے۔مگر ان کا کہنا ہے لیکن یہ ویکسین بہت جلدی میں نہیں بنائی گئی کافی عرصے سے اس پر ایک مسلمان سائنسدان کام کر رہا تھا۔پھر پوری دنیا کے ماہرین نے اس پر کام کیا ہے اس لیے یہ بہت جلدی سامنے آگئی۔تقریباً چالیس پچاس ہزار لوگوں پر آزمائی گئی ہے۔اور وہ سب صحیح رہے ہیں۔باقی رہے نقصانات تو وہ ہر دوا کے ہوتے ہیں۔ہر طرح کی علاج کی سہولت کے باوجود ہم کسی بھی شعاعوں سے بچ نہیں سکتے۔M.R.Iسے لے کر الڑاساﺅنڈ تک ہر علاج میں رسک ہے۔تو اب دنیا کو یہ رسک لینا ہی پڑے گا۔ورنہ وائرس کی روک تھام مشکل ہو جائے گی۔یہ سب سوچ کر میں نے تو یہ انجکشن اپنی والدہ سمیت لگوا ہی لیا۔اور ان تمام لوگوں کو جو گھبرا رہے ہیں پریشان ہیں میرا ہی مشورہ ہے۔کے اگر آپ کے پاس یہ ویکسین لگانے کی سہولت ہے۔ توضرور لگوائیں۔خاص طور پر اگر آپ کسی ہسپتال میں یا کام کرتے ہیں عمر رسیدہ ہیں یا کسی عمر رسیدہ کے ساتھ رہتے ہیں۔یا بہت زیادہ عام عوام سے واسطہ ہے تو ضرور اس کے بارے میں سوچیں۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here