جاوید رانا، بیوروچیفشکاگو
امریکہ سے لے کر پاکستان تک سیاست کے رنگ ڈھنگ اس نہج پر پہنچ چکے ہیں جہاں ہمیں وہ محاورہ یاد آتا ہے کہ اس حمام میں سب ہی ننگے ہیں۔ سیاست کے کھیل میں، خود غرضی، مفاد پرستی اور ہوس اقتدار میں ہر جائز ناجائز اقدام کی رسم پاکستان میں تو گزشتہ 7 دہائیوں سے جاری و ساری ہے اور خدا جانے کب تک جاری رہے، حالیہ امریکی انتخابات کے بعد ٹرمپ کی شکست اور اس کی فطرت نیز وائٹ سپرمیسی کے متعصبانہ نکتہ¿ نظر کے باعث یہاں بھی سیاست میں وہی تماشہ بازی جلوہ گر ہے جو پاکستانی سیاست کا خاصہ رہا ہے۔ امریکہ کو اس کی دو سو سال سے زائد جمہوری روایات کی پاسداری اور تسلسل کے باعث ایک اہم حیثیت حاصل ہے لیکن اس بار صدارتی انتخابات میں ٹرمپ کے شکست سے دوچار ہونے کے بعد جو صورتحال سامنے آئی ہے، خصوصاً 6 جنوری کو کیپٹل ہل پر جس طرح چڑھائی کی گئی، ہنگامہ آرائی کرنےوالوں نے جس طرح کے متعصبانہ نعرے لگائے، پارلیمان کو تہس نہس کیا اس کی مثال امریکہ کی جمہوری تاریخ کو مسخ کرنے کی بدترین صورت پیش کرتی ہے۔ مبصرین کے مطابق گزشتہ ڈیڑھ صدی میں اس طرح کی کوئی صورتحال سامنے نہیں آئی۔ مبصرین اور تجزیہ کاروں کے مطابق یہ کوئی فوری رد عمل نہیں تھا ٹرمپ کا انتخابات سے پہلے ہی اپنی تقریروں میں انتخابات چوری کئے جانے اور سفید فام امریکیوں کے حقوق کی بالادستی کا متعصبانہ استدلال نیز بعد ازاں شکست سے لے کر 6 جنوری تک اپنی تقاریر میں اپنے حقوق و اقتدار حاصل کرنے کا فلسفہ اس ہنگامے کا محرک تھا جس کی بناءپر 6 جنوری کا واقعہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت عمل میں آیا۔
بہر حال اس بدترین واقعہ کے باوجود نہ صرف صدر اور نائب صدر کی تصدیق و توثیق کا عمل تکمیل کو پہنچا بلکہ صدر ٹرمپ کے مواخذے کی تحریک بھی ایوان نمائندگان سے اکثریت سے منظور ہوئی جس میں دس ریپبلیکنز نے بھی تحریک کی حمایت کی۔ ٹرمپ کو اپنی ہٹ دھرمی و فطرت کے حوالے سے یہ خصوصیت حاصل ہوئی ہے کہ وہ امریکی صدور میں پہلا صدر ہے جسے دو بار مواخذے کا سامنا ہوا ۔ امریکہ کی مضبوط جمہوریت میں اس واقعہ کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے آئندہ کے متوقع حالات کے پیش نظر نہ صرف واشنگٹن میں 20 ہزار نیشنل گارڈز متعین کر دیئے گئے بلکہ ایف بی آئی و دیگر ایجنسیوں کی رپورٹس کے باعث تمام ریاستوں کے دارالخلافوں میں بھی نیشنل گارڈز کی تعیناتی کی جا رہی ہے تاکہ20 جنوری کو انتقال اقتدار و حلف برداری کے وقت کوئی تخریبی کارروائی نہ ہو سکے۔ اُدھر ٹرمپ نے حلف برداری میں شرکت نہ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے یہ مطالبہ بھی کر دیا ہے کہ اس کی وائٹ ہاﺅس سے روانگی مکمل پروٹوکول کےساتھ کی جائے۔ خفیہ اداروں کے مطابق KKK اور Q موومنٹ نے حلف برداری کے موقع پر ہنگامہ آرائی و خونریزی کی منصوبہ بندی کی ہے تاہم قانون نافذ کرنےوالے اداروں نے اس کی بیخ کنی کیلئے مکمل پیش بندی کی ہے اور سینکڑوں گرفتاریاں بھی کی ہیں تاکہ کسی قسم کی کوئی ہنگامہ آرائی نہ ہو اور 20 تاریخ کا مرحلہ خیر و عافیت سے گزر جائے۔ امید ہے کہ ہمارا کالم جس دن آپ کے زیر مطالعہ ہوگا، حلف برداری کا مرحلہ سکون و امن سے تکمیل پا چکا ہوگا۔
ہنگامہ آرائی اور الزام تراشی و شورش میں وطن عزیز کی سیاسی اشرافیہ کا مقابلہ تو غالباً دنیا کے کسی ملک کے سیاستدان یا حکمران نہیں کر سکتے۔ اقتدار میں ہوں یا اقتدار سے محروم، کوئی نہ کوئی موضوع، اسکینڈل یا بہانہ ان سیاسی گھاگھوں کو اپنے شوق ہنگامہ آرائی اور دشنام طرازی کیلئے مل جاتا ہے۔ غالب کے بقول ”ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق، کچھ نہیں ہے تو عداوت ہی سہی“۔ جو صاحب اقتدار ہوں وہ مخالفین کی دھجیاں بکھیرتے ہیں اور جو اقتدار سے باہر ہوں وہ حکومتی اغیار کو نکال پھینکنے کے درپے ہوتے ہیں۔ ایک طویل سلسلہ ہے الزام تراشیوں کا، اسکینڈلز اور تہمتوں کا جو رُکنے کا نام نہیں لیتا لیکن اس کے نتائج نہ ملک کے مفاد میں ہوتے ہیں نہ ہی عوام کی بہتری کیلئے، بس مقابل کو گندا کرنے کا بہانہ بنتے ہیں۔ میمو گیٹ، پنامہ، سرے محل، ایون فیلڈ سے لے کر اب براڈ شیٹ کے ریکٹ، فارن فنڈنگ کے جھمیلے، لوٹی ہوئی دولت کی واپسی کے ڈرامے و دعوے غرض طرح طرح سے ایک دوسرے کےخلاف پیالی میں طُوفان اُٹھایا جاتا ہے نتیجہ ڈھاک کے تین پات، اس وقت مخالفین سیلیکٹڈ کو نکالنے کے چکر میں دن رات لگے ہوئے ہیں۔ جبکہ حکومتی ٹولہ نیب کے چھتر تلے مخالفوں کو جڑ سے اکھاڑنے کے چکر میں ہے۔ تازہ ترین جھگڑے میں حکومت کی بنیاد مخالفین کیلئے براڈ شیٹ کا ڈرامہ اور شریفوں و زرداریوں کی کرپشن ہے تو مخالفین کی جانب سے جوابی وار مہنگائی، آٹے چینی کے اسکینڈل اور تازہ ترین فارن فنڈنگ کا الزام ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ تمام تر حرف زنی اپنی برتری ثابت کرنے کیلئے ہے جبکہ اس تمام جھگڑے کا نتیجہ صفر ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ سیاست کے اس حمام میں سب ہی یکساں نظر آرہے ہیں۔
گزشتہ ڈھائی سال میں نیب نے تقریباً سارے ہی سیاسی مخالفین پر ہاتھ ڈالا، مقدمے چلے، بیشتر کی ضمانتیں ہو گئیں، نوازشریف لندن میں مزے کر رہے ہیں، زرداری بیماری کی چھتر چھایا میں ہیں اور شہباز شریف و خواجہ آصف وغیرہ جیل میں گھر جیسے آرام سے محظوظ ہو رہے ہیں۔ کرپشن کا ایک دھیلا بھی ان سے وصول نہیں کرایا جا سکا۔ ایک نیا ڈرامہ براڈ شیٹ کا سامنے آیا ہے جس میں حکومت کو اربوں ڈالرز کی چنٹی پڑ گی ہے۔ متحارب فریقین ایک دوسرے پر تنقید کے تیر چلا رہے ہیں جبکہ اس ڈرامے کا آغاز پرویز مشرف کے دور میں ہوا جب ایک ماہ قبل قائم ہونےوالی براڈ شیٹ کو جون 2000 میں ڈھائی سو پاکستانیوں کی بیرون ملک رقوم بھیجنے کی تحقیقات کا معاہدہ کیا گیا ان میں نوازشریف سمیت اُسوقت کے مخالف سیاستدانوں کے نام شامل تھے۔ براڈ شیٹ کا اونر جیروم نامی امریکی تھا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایف بی آئی کے ایجنٹ کے طور پر کام کرتا تھا۔ 2003 ءمیں پرویز مشرف نے یہ معاہدہ ختم کر دیا جبکہ یہ فرم بھی لیکویڈیشن میں چلی گئی تاہم اس نے معاہدہ کی تنسیخ پر مقدمہ کیا اور فیصلہ پاکستان کےخلاف ہوا۔ اب حکومت پاکستان پر کمیشن ادائیگی اور سود کا بوجھ پڑا۔ براڈ شیٹ کا سی ای او موسوی اس حوالے سے نت نئے شگوفے چھوڑ رہا ہے اس نے شہزاد اکبر اور نامعلوم جنرل ملک کے کمیشن طلب کرنے کے الزام لگا کر عمران خان سے تعاون کرنے کی پیشکش کی جبکہ اس شخص کے بارے میں مختلف حلقوں سے منفی رائے سامنے آئی ہیں۔ اُدھر دوسری جانب پی ٹی آئی کے اکبر ایس بابر کی الیکشن کمیشن میں دائر پٹیشن کے حوالے سے 19 کو فیصلہ متوقع ہونے کے ناطے فضل الرحمن اور پی ڈی ایم نے دھرنے کا فیصلہ کیا ۔ اگرچہ اس فیصلے سے اپوزیشن کو کوئی فائدہ پہنچنے کا ہرگز امکان نہیں لیکن بُغض عمران اور حکومت گراﺅ مہم کے تحت پی ڈی ایم اسے بھی اپنی مہم کا حصہ بنانے پر تُلی ہوئی ہے۔
ہمارے کالم کا ماحاصل یہی ہے کہ پاکستان میں ہماری سیاسی اشرافیہ صرف اور صرف اپنی اغراض کے حمام میں اپنے آپ کو صاف ستھرا کرنے اور مخالفوں کو غلاظت میں لتھیڑنے پر مصروف عمل ہے اور عوام کی مشکلات اور ملک کی ترقی و خوشحالی کیلئے صرف دعوﺅں پر اکتفا کرتی ہے عمل کی کوئی صورت نہ موجودہ حکمرانوں کے پاس ہے نہ ماضی کے حکمرانوں کے پاس، بجلی اور تیل کے داموں میں اضافہ عوام کیلئے مرے پر سو دُرّے کے مصداق ہے، اس سیاسی حمام میں کوئی بھی صاف نہیں۔
٭٭٭