جاوید رانا، بیوروچیفشکاگو
آج یہ کالم لکھنے بیٹھا ہوں تو ذہن کے پردے پر صرف ایک ہی تصور اُبھر رہا ہے، ہم بطور انسان بطور معاشرہ، جانوروں سے بھی بدتر کیوں ہو گئے ہیں، انسان اور جانور میں سوچ کا ہی تو فرق انسان کو امتیازی درجہ دیتا ہے، سوچ کی بنیاد پر ہی جذبوں اور عمل کی تکمیل ہوتی ہے، جذبے اگر مثبت ہوں تو انسانیت کا عمل ظہور پذیر ہوتا ہے اور منفی جذبہ انسان کو شیطینیت کا عمل عطاءکرتا ہے۔ بلکہ انسان سے حیوان بنا دیتا ہے، اسلامی جمہوریہ پاکستان کی تشکیل کی بنیاد، دین بین کے استوار کئے ہوئے اصولوں پر ہوئی جو تمام عالم کیلئے مشعل راہ اور انسانیت کے بین العالمی اصول تسلیم کئے گئے ہیں۔ اقوام متحدہ کا چارٹر انہی اصولوں پر مبنی ہے لیکن اسلام کے انہی زریں اصولوں پر قائم پاکستان کے معاشرتی اعمال ہر شعبہ میں متضاد ہی نظر آتے ہیں، حالت یہ ہے کہ سار امعاشرہ ہی کذب، منافرت، تعصب اور بد اعمالیوں سے بھر چکا ہے۔ یہ صورتحال محض کسی مخصوص شعبے یا طبقے تک ہی محدود نہیں بلکہ اوپر سے نیچے تک ہر شخص، گروہ، طبقہ اس زہر سے گُھلا ہوا ہے۔ا نسان کے درجے سے گر کر حیوانیت کے زمرے میں شمار کئے جانے والے واقعات ہر دن کی حقیقت بن چکے ہیں۔ سیاسی، کاروباری و دیگر معاملات تو میں چور بازاریوں، دشنام طرازیوں، جھگڑوں پر پہلے ہی بہت کچھ عرض کرتا رہا ہوں اور آئندہ بھی کرتا رہوں گا۔ ہمارے معاشرتی، اخلاقی تنزل کی حالت اس درجہ ہو چکی ہے کہ ہر شہر، قصبہ، گاﺅں، شاہراہ، گلی، محلہ میں انسانیت کی تذلیل، قتل و غارتگری، بے حرمتی، آبرو ریزی کی وارداتیں روز کا معمول ہیں۔ یہ سب شیطانی و حیوانی حرکتیں پہلے بھی ہوتی رہی ہونگی کہ ہمارے ملک جیسے جاگیردارانہ، سرداری وڈیرہ ذاری نظام میں ہوس کے بھوکے طاقتور بھیڑئیے اپنی محکوم رعایا پر ہر ظلم و ستم اور بدکاری کو اپنا حق سمجھتے ہیں اور کسی بھی دقیقہ سے گریز نہیں کرتے۔ کمی، کمین اور مزارے ان کے سامنے بے بس اور لاچار نظر آتے ہیں اور اپنی عزتیں بھی نہیں بچا سکتے۔
بدکاری اور زیادتی کے واقعات کا یہ زہر رفتہ رفتہ اب نچلے طبقوں میں بھی بُری طرح سرایت کر چکا ہے اور کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب کوئی عورت، بچی یا بچہ اس عمل کی بھینٹ نہ چڑھتے ہوں۔ کراچی سے لے کر شمالی علاقوں تک بشمول وفاقی دارالحکومت کوئی نہ کوئی خاتون، بچی، یا بچہ ان جنسی بھیڑیوں، ہوس کے کتوں کی درندگی کا شکار نہ ہوتے ہوں۔ اس عمل میں ان بے غیرتوں کی کوئی تخصیص نہیں ہوتی۔ ڈاکو، قاتل، پڑوسی، دکاندار، رشتہ دار سبھی اس گھناﺅنے عمل میں ملوث ہوتے ہیں۔ میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے ہر روز اس قسم کے واقعات سامنے آتے ہیں۔ پانچ سال کی بچی، چھ سال کے بچے سے جوان لڑکیوں اور بچوں کی ماﺅں تک سے زیادتی اور قتال کے یہ واقعات موجودہ گلوبل منظر نامے میںہمارے ملک کا منفی تاثر اور غلیظ معاشرے کی تصویر کشی کا باعث ہوتے ہیں۔
افسوس اس بات پر ہے کہ اس قسم کے واقعات پر جہاں میڈیا جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام کرتا ہے، وہیں ہمارا نظام اس کے تدارک کی جگہ اپنے بے سمت اقدامات سے اس میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔ حکومتی و انتظامی ذمہ داران بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں۔ ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کی بات کرتے ہیں اور کچھ ہی دن میں وقت کی دُھول پڑنے سے یا کسی نئی واردات کے باعث متعلقہ معاملہ ماضی کی کوٹھڑی میں بند ہو جاتا ہے۔ بات حکومت یا انتظامیہ تک ہی محدود نہیں، سیاسی اشرافیہ و جفاداری بھی ان معاملات پر اپنی دوکان چمکانے کا کام ہی کرتے ہیں اور مخالفین کو ہدف بنا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ساری صورتحال مخالفین کی وجہ سے ہے۔ گزشتہ ہفتے لاہور سیالکوٹ موٹر وے پر جو زیادتی کا واقعہ پیش آیا، اس پر لاہور کے سی سی پی او عمر شیخ نے واقعہ کے حوالے سے زیادتی کا شکار ہونےوالی خاتون کے حوالے سے گفتگو کی وہ کسی بھی طور سے قانون کے محافظ اور صوبائی دارالحکومت کے پولیس چیف کے حوالے سے تسلیم نہیں کی جا سکتی۔ مزید یہ کہ پولیس کا کام یہ نہیں کہ زیادتی کا شکار متوفی پر الزام تراشی کرے بلکہ اس کی دادرسی پولیس کا فرض ہے۔ ہمارے نظام کی خرابی ہے کہ پولیس خود کو فورس گردانتی ہے جبکہ پولیس عوامی خدمت کا ادارہ یعنی ایک سروس ہے جو قانون کے دائرے میں رہ کر نظم و نسق برقرار رکھنے اور جرم کی بیخ کنی کی ذمہ دار ہے۔ خیر چیف جسٹس لاہور کی سرزنش اور ہر جانب سے لعنت و ملامت کے بعد عمر شیخ نے معافی مانگ لی لیکن یہ اقدام اس حقیقت کو مزید واضح کر گیاکہ ہمارے نظام میں خصوصاًپولیس کے حوالے سے کس قدر خامیاں ہیں۔ پولیس میں بہتری لانے کیلئے موجودہ حکومت سمیت ہر حکومت نے دعوے تو کئے لیکن ہر حکومت نے اس ادارے کو اپنے سیاسی مقصد کیلئے ہی استعمال کیا ہے کہ اغراض کی ترجیح ہی ان کے مقاصد کا ماحصل رہی ہے۔
اغراض و مقاصد کی یہ صورتحال حالیہ واقعہ میں بھی سیاسی و انتظامی برز جمہروں نے دکھائی۔ ایک جانب حکومتی اداروں نے پُھرتی دکھاتے ہوئے مبینہ بے غیرت ملزمان کی تصویریں سوشل میڈیا سے اُٹھا کر ان کی نشاندہی کے دعوے کئے جبکہ ان میں سے ایک وقار الحسن نے خود کو پیش کر کے واضح کر دیا کہ وہ اس واردات میں ملوث نہیں تھا اور اس کے ڈی این اے سے ثابت بھی ہو گیا جبکہ دوسرا ملزم عابد پولیس کے تمام تر انتظامات کے باوجود فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ عجیب بات یہ کہ شکاگو سے برآمد شدہ وزیراعظم کے مشیر نے وزیراعلیٰ پنجاب، آئی جی و پولیس چیف کو مبارکباد بھی دے ڈالی۔ مقصد محض سیاسی سبقت دکھانا تھا۔ حقیقت میں تو معاملہ اب تک کھٹائی میں ہی پڑا ہوا ہے۔ سیاسی شعبدہ بازی اور مفادات کی غرض میں، ن لیگ نے بھی اس سانحے کو استعمال کیا۔ چپٹی ناک کی جھگڑالو مریم اورنگ زیب اور خود ساختہ پروفیسر احسن اقبال کو کچھ نہ ملا تو اپنی برتری دکھانے اور حکومت مخالفت کے اظہار کیلئے موٹر وے کی تعمیر کو نوازشریف کا کریڈٹ قرار دےتے ہوئے حالیہ سانحہ کو حکومت کی انتظامی نا اہلی قرار دینے کی کوشش کی، حد یہ کہ ن لیگ کے صدر اور قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے بھی قومی اسمبلی میں بھی یہی راگ الاپا۔ مفادات کیلئے ایسے مواقع پر بھی سیاست کرنے پر ان نام نہاد قوم کے رہنماﺅں کو شرم آنی چاہیے۔ شرم تو ان نام نہاد مذہبی رہنماﺅں اور ملاﺅں کو بھی نہیں آتی جو دین کی تعلیم دیتے ہیں اور معصوم شاگردوں سے جنسی زیادتی کرتے ہیں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ وطن عزیز میں قوم کا ہر شعبہ کسی نہ کسی غلاظت میں لتھڑا ہوا ہے، جھوٹ، فریب، دھوکہ، بد قماری، جنسی ہوس، لوٹ مار، قتل و غارتگری، بد عہدی، افتراق، منافرت اور منافقت اوپر سے نیچے تک سرایت کر چکے ہیں۔ سچ ہے کہ جب حکمران اور رہنما خراب ہوں، جھوٹے ہوں اور اپنے مفاد کے غلام ہوں تو پوری قوم ہی غلاظت سے متاثر ہوتی ہے، کچھ یہی حالات آج وطن عزیز میں ہیں، جہاں کسی کی عزت و آبرو محفوظ نہیں۔ انسانوں کے روپ میں درندے دندناتے ہیں اور ان کو روکنے والا نہیں ہے، بقول شاعر!
وہ جن کے ہوتے ہیں خورشید آستینوں میں
انہیں کہیں سے بلاﺅ بڑا اندھیرا ہے
مگر وہ صاحب خورشید کہاں سے آئیں گے، تطہیر کاکام کون کرے گا؟ ”یہی لمحہ¿ فکریہ ہے“!!!
٭٭٭