جاوید رانا، بیوروچیفشکاگو
دیکھتی آنکھوں سنتے کانوں کو طارق عزیز کا سلام، یہ جملہ میرے ہم عصر، بزرگ اور مجھ سے عمر میں کچھ کم پاکستانیوں کے تحت الشعور سے کبھی محو نہیں ہو سکتا۔ اس جملے اور پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگانے والا پاکستان کا عظیم فرزند گزشتہ ہفتے ابدی نیند سو گیا، جب اس محب وطن، ہمہ جہت، دانشور اور سچے انسان کا ذکر ہو تو اس کی ذات میں موجود خُوبیوں کا ہر وہ پہلو نظروں کے سامنے آتا ہے جو اس کو ہمیشہ زندہ جاوید بنا دیتا ہے۔ ادب، سیاست، دانش، براڈ کاسٹنگ اور پاکستان میں ٹیلی ویژن کے پہلے اناﺅنسمنٹ و نیوز ریڈنگ کا حامل طارق عزیز ایک لیجنڈ ہی نہیں بلکہ ایک سچا پاکستانی تھا۔ مجھے یاد ہے کہ نیلام گھر دیکھنے کیلئے سارے افراد خاندان پورے ہفتے بے چینی سے انتظار کرتے تھے اور پروگرام کے اختتام پر طارق عزیز نعرہ لگاتے تھے تو سارے افراد ان کے ہم آواز ہو کر زندہ باد پُرجوش طریقے سے کہتے تھے اور دلوں میں جذبہ¿ وطن دو آتشہ ہو جاتا تھا۔ طارق عزیز کی ادبی صلاحیتوں، ذہانت، سیاست اور اداکارانہ و فنی صلاحیتوں کا احاطہ کرنے کیلئے ایک دفتر درکار ہوگا جو یقیناً اس کالم کی حدود میں ممکن نہیں۔ اس عظیم شخصیت کی وفات پر ہمارے میڈیا کا رویہ کسی بھی طرح طارق عزیز کے حوالے سے مستحسن یا ان کے شایان شان نہیں رہا، حتیٰ کہ پی ٹی وی نے بھی اپنے اس بانی رکن فنکار کے حوالے سے بہت اس کے شایان شان خراج عقیدت پیش نہیں کیا۔ دوسری جانب سوشل میڈیا پر بھارتی اداکار سُشانت سنگھ راجپوت کی خود کشی کو اس طرح پینٹ کیا گیا گویا وہ ہماری قوم کا بہت بڑا ہیرو تھا۔ یہاں تک کہ اس حقیقت سے قطع نظر کہ وہ کون تھا، اس نے خود کشی کیوں کی۔ اس کے اعلیٰ درجات اور مغفرت کی دعائیں کی جاتی رہیں۔ پاکستان کی لیجنڈری اداکارہ صبیحہ خانم کے انتقال کے حوالے سے ہمارے میڈیا اور سوشل میڈیا کا رویہ بھی طارق عزیز بارے روئیے سے کچھ مختلف نہ تھا۔
آخر ایسا کیوں ہے؟ ہمارے لوگوں کے ان رویوں کا بنیادی ماخذ کیا ہے کہ اپنے لوگوں کو نظر انداز کر کے ہم دوسروں کی تعریف و توصیف اور مدح سرائی میں اپنی بڑائی و سماجی برتری ثابت کرنے پر فخر محسوس کرتے ہیں موجودہ دور کو پروپیگنڈہ و ففتھ جنریشن وار کا دور کہا جاتا ہے جہاں برتری کامعیار اپنی معاشرت، ثقافت اور تہذیب کو دوسروں پر مسلط کر کے ذہنوں کو تبدیل کرنے اور قوموں کو محکوم بنانے کا عمل ادا کیا جاتا ہے۔ ہماری بد نصیبی کہیں یا قوم کی بے حسی کہ ہم اپنے ازلی دشمن کی ثقافتی یلغار میں اس بُری طرح گِھر چکے ہیں کہ ہمارے لوگوں کو بھارتی فنکار، فلمیں، ڈرامے، بھارتی فیشن، ادب و معاشرت زیادہ متاثر کرتی ہیں۔ اور اپنے قومی ہیروز، ثقافت و معاشرت پس پُشت چلے جاتے ہیں۔ پروپیگنڈے کی اس جنگ کی بڑی مثال متذکرہ بالا واقعات سے ہی سامنے آجاتی ہے کہ سشانت سنگھ کی خود کشی کے واقعہ کو (جبکہ خود کشی ایک منفی اور حرام اقدام ہے) کو اس حد تک اہمیت دی گئی کہ اس کے جانے سے دنیا کو بلکہ پاکستانیوں کو بہت صدمہ ہوا ہے۔ سشانت جیسے چند فلموں کے حوالے سے شہرت پانے والے اداکار کو پاکستان کے فنی منظر نامے میں اپنے فنی سفر کی بلندیوں پر فائز طارق عزیز و صبیحہ خانم پر زیادہ فوقیت دی گئی۔ اس کل کے چھوکرے کے بارے میں ہمارے سوشل میڈیا اور یو ٹیوب پر بعض اینکرز نے ہر ہر پہلو اور تفصیل بیان کیں لیکن کیا انہیں یہ معلوم ہے کہ پاکستان میں دہشتگردی کےخلاف جنگ میں ہمارا آخری شہید سپاہی کون تھا، کرونا کےخلاف لڑتے ہوئے کون سا ڈاکٹر یا طبی عملے کا آخری شہید کون ہے۔
بات تفصیلی ہوتی جا رہی ہے، مختصراً یہ کہ اس وقت ساری دنیا میں ففتھ جنریشن وار کا دور دورہ ہے، قوموں کو محکوم بنانے کیلئے حربی جنگیں اب ضروری نہیں، پروپیگنڈے کی بنیاد پر لوگوں کو ذہنی غلامی کے شکنجے میں جکڑ کر اس حد تک لے جایا جاتا ہے کہ وہ اپنے قومی، معاشرتی، ثقافتی، تہذیبی اور نظریاتی تشخص سے قطعی لا تعلق ہو جائیں اور غیروں کی تقلید میں ہی اپنی شان و منزلت تلاش کرتے ہیں۔ کشمیر بنے گا پاکستان اور موذی مودی کا زبانی نعرہ لگانے والے پاکستانی ذہنی اور عملی طور پر بھارتی پروپیگنڈے کے زیر اثر اس حد تک آچکے ہیں کہ خدانخواستہ اگر بھارت، پاکستان سے کسی کنونشنل محاذ آرائی کا ارتکاب کرے تو پاکستانی قوم یکجہتی اور اتحاد کے جذبے سے قاصر نظر آئے۔ اللہ نہ کرے کہ ایسی صورتحال پیش آئے لیکن سوشل میڈیا میں بالخصوص اور دیگر شعبوں میں چُھپے ہوئے بھارت کے وظیفہ خوار اور اندرونی دشمنوں سے کوئی بعید نہیں۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ ہمارے لوگ اپنی بے حسی کے خول سے باہر نکلیں اور بھارت جیسے پاکستان کے ازلی دشمن کی اس ففتھ جنریشن وار سے باہرآئیں اور دشمن کی مکارانہ سازش کو سمجھیں۔ محض یہ فرض کر لینا کہ ہماری عسکری اشرافیہ ملکی بقاءو سلامتی کی ضامن ہیں صحیح نہیں، ملکی بقاءو تحفظ کیلئے قوم کی یکجائی و اتحاد لازمی امر ہے۔ پروپیگنڈہ کے اس دور میں ہماری حکومت، سیاسی اشرافیہ اور خصوصاً میڈیا کو اپنی تمام تر توانائیوں اور صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر اس جنگ میں دشمن کو شکست دینے کیلئے اور قومی وحدت اُجاگر کرنے کیلئے بھرپور کردار ادا کرنا ہوگا۔ یہی وقت کا تقاضہ بھی ہے اور قومی وحدت کیلئے فریضہ بھی۔ بے حسی کا خاتمہ جب ہی ممکن ہے جب ففتھ جنریشن وار میں ملوث اندر کے دشمنوں کا قلع قمع کرنے کےساتھ اپنے مضبوط و مربوط پروپیگنڈے سے قوم کو خواب غفلت سے بیدار کیا جائے اور دشمن قوتوں کو منہ توڑ جواب دیا جائے۔ مرحوم طارق عزیز کو خراج عقیدت پیش کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ پاکستان زندہ باد، ہر پاکستانی کے دل کی دھڑکن بن جائے۔
٭٭٭