عوام کی فتح!!!

0
15
جاوید رانا

الیکشن کا تماشہ کہنے کو تکمیل پذیر ہوا لیکن کیا یہ انتخابات تھے یا چُنتخابات تھے؟ 8 فروری کو ہونیوالے انتخابات مجموعی طور پر پُر امن تو ہوئے اور چشم فلک نے دیکھا کہ جن پر ظلم و بربریت، قید و سزائوں کے طوفان برپا کئے گئے، جن کی انتخابات کی شناخت بھی ان سے چھین لی گئی اور جن کی انتخابی مہم پر ہر طرح کی قدغنیں لگائی گئیں، قوم نے انہیں اپنے ووٹوں سے یوں سرفراز کیا کہ تمام تر سیاسی و ریاستی مخالفتوں اور کوششوں کے باوجود کوئی بھی قوم کے عمران سے محبت کے جذبے کو نہ روک سکا۔ وفاق سے لے کر صوبوں تک پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں کی بے مثال کامیابی نے نہ صرف عمران مخالف مقتدرہ اور اس کے آلۂ کاروں کو دہلا کر رکھ دیا بلکہ لاڈلی سیاسی جماعت کے ان بتوں کو بھی گرا دیا جو ہمیشہ اپنی کامیابی کے نشے میں چُور رہے اور تصور میں بھی اپنی شکست کا نہیں سوچ سکتے تھے۔ وفاق، پنجاب، کے پی کے جوں جوں نتائج آرہے تھے اور جس طرح پی ٹی آئی کے حمایت کردہ آزاد امیدواروں کی جیت سامنے آرہی تھی، صاف ظاہر تھا کہ مخالفین پر جھاڑو پھر گئی ہے۔ پھر یوں ہوا کہ نتائج آنے میں تاخیر کا مرحلہ شروع ہوا اور 8 تاریخ کے انتخابات 9 تاریخ کو چُنتخابات میں تبدیل ہو گئے اور نتائج میں جن لوگوں کو اپنی شکست نظر آرہی تھی، ای سی پی اور اصل حکمرانوں کی نظر کرم سے انہیں ہزاروں ووٹوں کے فرق سے کامیاب قرار دیدیا گیا۔
حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ نصف صدی سے بھی زیادہ ہم نہ صرف وطن عزیز کی انتخابی معرکہ آرائیوں کے شاہد رہے ہیں بلکہ اپنی نوجوانی میں اس کا حصہ بھی رہے ہیں، غیر جماعتی انتخابات، سلیکشن، سلیکٹر اور سلیکٹڈ کے تماشے بھی دیکھے لیکن حالیہ انتخابات میں جو کچھ کیا گیا ہے جو کیا جا رہا ہے ملکی تاریخ میں شاید کبھی نہ ہوا۔ جو کچھ ہوا ہے اور ہو رہا ہے اسے انقلاب کی نوید یا انقلابی تبدیلی کہنا غلط نہ ہوگا، ایک جانب تو جس کو ہروانا مقصد ہے اسے عوام نے اپنے شعور و جذبے سے قومی اسمبلی میں سب سے بڑی جماعت کے طور پر کامیاب کروا کے 180 نشستوں کا حقدار بنا دیا ہے اور جس لاڈلی جماعت کو جتوانے کی کوشش کی جا رہی ہے اس کے کامیاب امیدوار اس حقیقت کا انکشاف کر رہے ہیں کہ ہم تو ہار رہے تھے ہمیں زبردستی جتوایا جا رہا ہے۔ حوالے کے طور پر مسلم لیگ کے سینئر رہنما اور 2008ء کے رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر نثار چیمہ اور جید رہنما سردار رئیسانی کے نام دیئے جا سکتے ہیں جنہوں نے دھاندلی سے فتحیابی کو مسترد کرتے ہوئے مخالف پی ٹی آئی آزاد امیدواروں کو فاتح قرار دیا ہے۔ انقلابی تبدیلی کے مظاہر تو ایک ڈپٹی کمشنر (DRO) کے منظوم استعفی اور ایک پریذائڈنگ آفیسر کی برسر عام احتجاجی ویڈیوز کے وائرل ہونے سے بھی سامنے آرہے ہیں کہ دھاندلی اور جعلسازی کیخلاف ہر طبقہ، ہر شعبہ نے احتجاج کر دیا ہے۔ بات یہیں تک نہیں، ملکی تاریخ کے سب سے بڑے عوامی مینڈیٹ کی تحقیر و نفی پر عوام میں جو احتجاجی اور غم و غصہ کی کیفیت آرہی ہے اس کے حقائق میڈیا، سوشل میڈیا کے توسط سے سامنے آرہے ہیں، وہ اسٹیبلشمنٹ اور الیکشن کمیشن کے سازشی ایجنڈے کیخلاف انقلابی تحریک کا آغاز شمار کئے جا سکتے ہیں۔ قارئین ان سے یقیناً آگاہ ہیں تاہم ہم یہاں وطن عزیز کی مقبول ترین لیجنڈری فنکارہ بشریٰ انصاری کے وائرل ویڈیو سے اقتباس پیش کر کے قوم کے جذبات کی عکاسی کی کوشش کر سکتے ہیں۔ بشریٰ انصاری کے بقول کُھلی آنکھوں سے بھی ہم نے بہت کچھ دیکھ لیا، کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے بھی سب کچھ دیکھ لیا۔ میں سوچتی ہوں کہ دو مائیں ہمارے سامنے کھڑی تھیں ڈاکٹر یاسمین راشد و عثمان ڈار کی والدہ ریحانہ ڈار، ڈاکٹر یاسمین قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے کیساتھ کینسر سروائیر بھی ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ ان دونوں کیساتھ مردو ںکی طرح انصاف کیا جاتا لیکن میں نے آپ کی مردانگی دیکھ لی، سوری۔ حقیقت تو یہ ہے کہ انصاف اور مردانگی کا مظاہرہ تو مرد و زن کسی کیساتھ بھی نہیں دکھایا گیا مہربانو قریشی کے 16 ہزار ووٹ مسترد کر کے علی حیدر گیلانی کو فاتح قرار دے کر کس انصاف اور مردانگی کا مظاہرہ کیاگیا۔ ہماری اطلاع کے مطابق ملک بھر میں 16 لاکھ ووٹ مسترد کئے گئے جن میں سے اکثریت پی ٹی آئی حمایت یافتہ امیدواروں کے ووٹوں کی ہے لیکن اس کے باوجود سرخروئی عمران، پی ٹی آئی بالخصوص عوام کے حصہ میں آئی۔
جس وقت ہم یہ سطور لکھ رہے ہیں، الیکشن منعقد ہوئے ایک ہفتہ ہونے کو آرہا ہے وفاق اور صوبوں میں حکومت سازی کیلئے جوڑ توڑ، خرید و فروخت کا بازار گرم ہے۔ اقتدار میں حصہ داری اور قیادت و سیادت کیلئے ایک طرف وفاداریاں تبدیل کرائی جانے پر زور ہے تو دوسری جانب ملاقاتوں، معاہدوں اور منائے جانے کی کوششیں جاری ہیں۔ آزاد پی ٹی آئی اراکین پارلیمنٹ پر عمران کو چھوڑنے کیلئے ہر حربہ اور لالچ آزمایا جا رہا ہے لیکن وہ عمران سے بے وفائی کرنے اور عوام کے اعتماد سے انحراف کرنے کیلئے ہر گز تیار نظر نہیںا تے۔ بات یہاں تک آگئی ہے کہ اقتدار میں ڈھائی ڈھائی سال تک قیادت کرنے کا فارمولا بھی زیر گردش ہے مگر کیا ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت اور در حقیقت وفاق، کے پی کے اور پنجاب میں عوام کے سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنیوالی مینڈیٹ پارٹی کو مائنس کر کے کوئی مستحکم حکومت قائم رہ سکتی ہے، ایسی صورتحال نہ سیاسی استحکام کی متحمل ہو سکتی ہے اور نہ معاشی استحکام کی ضمانت بن سکتی ہے۔ اسٹاک ایکسچینج کی گرتی ہوئی صورتحال، اس کی اہم اور واضح مثال ہے، الیکشن کے انعقاد کے بعد صورتحال اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ امریکن، برطانوی اور یورپی یونین کی جانب سے نتائج پر تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے، خود نگراں وزیراعظم نے غیر ملکی میڈیا سے گفتگو میں دھاندلی کے خدشے کا اظہار کیا ہے ادھر آئی ایم ایف کی امداد میں بھی تاخیر کا اعلان سامنے آیا ہے۔
ہمارا تجزیہ کہتا ہے کہ انتخابات میں عوام کی عمران کے حق میں رائے دہی اور بھرپور حمایت کے پیش نظر مقتدرین کو اپنے رویوں پر نظر ثانی کرنی ہوگی کہ ملک کے سیاسی اور معاشی استحکام کیلئے بھان مکتی کا کنبہ کبھی بھی اس حوالے سے کامیاب نہ ہو سکے گا۔ دوسری تیسری پوزیشنز والی جماعتیں بھی اس حقیقت کو مد نظر رکھیں کہ حالیہ انتخاب کے فاتح عمران خان اور اس کی جماعت ہی نہیں اس ملک کے عوام ہیں اور اگر عوام کے مینڈیٹ کو تسلیم اس وقت نہ کیا تو ان جماعتوںکا سیاسی مستقبل بھی دائو پر لکھا جا سکتا ہے۔ ویسے بھی حافظ کا سوہن حلوہ زیادہ دیر تک نہیں کھایا جا سکتا ہے۔ اس امر کو ملحوظ رکھیں کہ سیاسی جماعتوں کا مستقبل عوام کی رائے و سپورٹ کا ہی محتاج ہے۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here