محترم قارئین کرام آپ کی خدمت میں سید کاظم رضا کا سلام پہنچے گزشتہ ہفتے برخوردار شب جمعہ پاکستان ٹیلی ویژن چینلز لگا کرمختلف چینل تبدیل کرتے ہوئے ایک پاکستانی نجی چینل پر رک گیا جس میں کوئی گیم شو چل رہا تھا، فل غل غپاڑہ، بے ہنگم حرکتیں۔۔۔۔ میں( جو کچھ مصروف تھا ) غصے سے ڈانٹ کر ٹی وی بند کروایا کہ “بیٹا شب جمعہ ہے، کچھ ادب احترام ہی کر لو۔۔۔۔” جس پر برخوردار نے پہلے تو مجھے حیرت سے دیکھا اور پھر نیچے نانی کے پاس چلا گیا۔۔۔ دل میں خیال آیا کہ جب اسے پتہ ہی نہیں کہ شب جمعہ کا ادب خاص طور پر کیوں کرنا ہے تو کیسے امید کر سکتا ہوں اس سے؟مجھے اچانک اپنا بچپن اور پی ٹی وی کا زمانہ یاد آگیا۔۔۔۔ سوچ لیا کہ آج دونوں برخوردار کو بٹھا کر سمجھاں گاکہ شب جمعہ کیا ہے اور اس کا ادب اور احترام کیوں ضروری ہے، پھر خیال آیا کہ مجھے کس نے بتایا اور سمجھایا تھا۔۔۔۔؟ بلاشبہ گھر سے، اسکول سے پتہ چلا۔۔۔ مگر کوئی اور بھی تھا جس سے بہت کچھ سیکھا۔۔۔۔ بچے کھیل کھیل میں ہی سیکھتے ہیں کسی کو کچھ سکھانا ہو تو اس کے من پسند طریقے سے سیکھایا جاتا ہے، ہمارے زمانے میں من پسند طریقہ کیا تھا؟ کہانیاں پڑھنا اور ٹی وی دیکھنا، کیونکہ اس زمانے میں ٹی وی ہی واحد Source of entertainment تھا۔۔۔ نونہال، تعلیم و تربیت اور پی ٹی وی۔۔۔۔ بہت سی باتیں، بہت سی یادیں ایک ساتھ ذہن میں وارد ہوئیں مگر بات کریں گے صرف ٹی وی کی۔۔۔۔مجھے آج بھی یاد ہے، بچپن میں ہمارے زمانے میں پچھتر چینلز نہیں ہوتے تھے، صرف ایک PTV تھا، جو اپنے آپ میں ہی ایک برانڈ تھا۔۔۔ رمضان کے مہینے میں درود شریف ایک مخصوص لے میں ریکارڈ کیا ہوا اتنی دفعہ چلایا جاتا تھا کہ ہمیں ازبر ہوجاتا تھا۔ محرم کے دنوں میں ایک خاص نشریات کا نشر ہونا ہمارے معصوم ذہنوں میں سوالات پیدا کرتا تھا جس کی بنا پر ہمیں معلوم ہوتا تھا کہ یہ تبدیلی کیوں؟ اب جب بچے وہی روٹین کا غل غپاڑہ دیکھیں گے تو کیونکر فرق معلوم ہوگا اور کیوں انہیں محرم کے دن عام دنوں سے مختلف لگیں گے۔۔۔ ہم بھی اپنی بھاگتی ہوئی زندگیوں میں اتنا مگن ہیں کہ ہمیں بھی جب تک بچے کچھ پوچھیں نہ، خود سے کہاں خیال آئے گا انہیں کچھ بتانے یا سمجھانے کا۔۔۔ بات ہو رہی تھی ٹی وی بلکہ پی ٹی وی کی۔۔۔۔ اس ہی پی ٹی وی سے ہم میں سے بیشتر افرادنے اردو پڑھنی سیکھی کیونکہ آج کل کے زمانے کی طرح شارٹ مووی نما اشتہارات بہت کم آتے تھے (یا شاید ہر برانڈ افورڈ بھی نہیں کر سکتا تھا اشتہار بنانا) عموما کسی تصویر پر مدعا بیان کر کے تصویر کچھ سیکنڈز کے لیے ٹی وی پر دیکھائی جاتی تھی اور پس منظر میں صوتی اثرات میں ایک بھاری مردانہ آواز ہوتی تھی۔ آج کی نئی نسل کے لیے آسان کر دوں کہ پس منظر سے مراد “بیک گرانڈ” اور صوتی اثرات مطلب “سانڈ ایفیکٹ”۔میں دعوے کے ساتھ کہہ سکتی ہوں کہ کی دہائی میں پیدا ہونے والے اکثر افراد آج بھی یہ جملہ صرف پڑھ کر ،اس ہی مردانہ آواز اور ٹون میں بخوبی سن سکتے ہیں۔۔۔۔”فرزانہ کا دوا خانہ، دستگیر نمبر نو، کراچی”۔۔
ڈرامہ ختم ہونے پر بھی تمام ٹیم کے نام اردو میں نشر کیے جاتے تھے، جس پر میری اور میری بہن کی ریس لگتی تھی کہ کون سب سے پہلے سب سے زیادہ نام پڑھے گا۔۔۔ پھر وقت بدلا، جدت بھی آئی، اشتہارات میں بھی اور نشریات میں بھی۔ مگر آج بڑی شدت سے احساس ہو رہا ہے کہ اس دور میں ہماری تربیت کرنے میں، ہمیں تہذیب سکھانے میں PTV کا ایک بڑا کردار رہا ہے۔
مجھے یاد ہے صبح اسکول جاتے ہوئے، ناشتہ کرنے کے وقت پی ٹی وی لگ جایا کرتا تھا۔ پونے آٹھ پر اسکول شروع ہوتا تھا، ہمارے پاس صرف سات سے ساڑھے آٹھ کا وقت ہوتا تھا جس میں ہمیں ناشتہ بھی کرنا ہوتا تھا اور تیار بھی ہونا ہوتا تھا۔ جس پر ہماری چالاکی یہ ہوتے تھی کہ منہ ہاتھ دھونے کے فورا بعد ہی پہلے یونیفارم پہن لیتے تھے کہ باقی کے کام تو ٹی وی کے سامنے بھی ہو سکتے تھے۔۔۔۔ 7 بجے چاچا جی(مستنصر حسین تارڑ) کا پروگرام شروع ہوجاتا تھا۔۔۔ اس کے بعد غالبا کوئی نعت یا حمد پیش کی جاتی تھی، پھر ورزش اور پانچ منٹ کا کارٹون، کارٹون سے پہلے چاچا جی ایک معلومات عامہ کا سوال پوچھتے تھے جس کا جواب کارٹون کے بعد ملتا تھا۔
یہ تو تھی تعلیم کی کہانی، اب آتے ہیں تربیت پر۔ اس زمانے میں ٹی وی پر جو ڈرامے نشر کیے جاتے تھے تہذیب، تمدن اور ہماری اخلاقیات کا منہ بولتا ثبوت تھے۔ ہیرو اگر کبھی کسی سین میں رومان بھری نظروں سے ہیروئن کو دیکھ رہا ہوتا تھا تو امی اور خالہ کا ایک خود ساختہ الارم بج جاتا تھا کہ شاید آگے کسی بیباک ڈائیلاگ کی آمد ہے، ہمیں اکثر ایسے موقع پر سوال داغ دیا جاتا تھا کہ”کل کا ٹیسٹ یاد ہوگیا؟ ہوم ورک کرلیا؟” یا بہت زیادہ ہی کچھ ہو رہا ہو تو بھگا دیا جاتا تھا کہ “اٹھو، یہ ڈرامہ بچوں کے دیکھنے کا نہیں ہے…!”
ہمیں ڈرامے صرف اس لیے دکھائے جاتے تھے (وہ بھی سارے نہیں، کچھ مخصوص، جو امی کے سینسر بورڈ سے پاس ہو چکے ہوں) کہ ہم اس میں سے اخذ کریں کہ فرمانبردار اولاد کیسے بننا ہے، ماں باپ کے ساتھ کیسے پیش آنا ہے۔۔۔ جو سارے طعنے ہمیں کزنز کی وجہ سے ملنے چاہیے تھے کہ فلاں کو دیکھو کتنے اچھے نمبر آیئں ہیں، فلاں کو دیکھو کس کلاس میں ہے، رائیٹنگ دیکھی اسکی وغیرہ وغیرہ۔۔۔ وہ سارے طعنے ہم نے ڈراموں کی وجہ سے کھائے۔ ڈرامہ میں اولاد نا ہنجار ہو تو ہمارا قصور کہ۔۔۔ “دیکھا، ایسی اولاد کا انجام بھی دیکھنا کیا ہو گا” ڈرامہ میں اولاد فرمانبردار ہو تو ہمیں طعنہ کہ”دیکھو، سیکھو کچھ”۔ اس زمانے کے ڈراموں کی ایک اور بہترین بات جو آج کل ناپید ہے، بلکہ اس بات کا مجھے آج کل کے ڈراموں میں شدید فقدان نظر آتا ہے، اور میرے خیال سے نوجوان نسل کا دماغ خراب کرنے کی ایک بڑی وجہ بھی بن رہی ہے کہ ان کو شعور جگانے کی عمر میں جذبات جگانے کا باعث بن رہی ہے۔۔۔ اس زمانے کے ڈراموں میں اگر ہیرو ہیروئن میں پسندیدگی کا عمل دکھایا جاتا تھا تو ایک مخصوص عمر کے لوگوں میں، جیسے کہ آفس کولیگ، یا یونیورسٹی فیلوز، یا شادی وغیرہ میں کسی کا پسند آجانا۔۔۔ یعنی ہمارے کچے ذہنوں کو یہ ذہن نشیں تھا کہ ایسے کام یعنی پیار محبت کی جسارت کرنے کی اجازت پڑھائی ختم کرنے یا شاید جاب کرنے کے بعد ہوتی ہے، جب “بڑے ” ہو جاتے ہیں۔ مگر آج کل اکثر ڈراموں میں یہ کام اسکول سے ہی شروع کروایا جا رہا ہے اور اسکے کچے ذہنوں پر کیا اثرات ہیں وہ تو ایک بھیانک نتیجہ کچھ عرصے پہلے کراچی کے ایک نجی اسکول کے واقعے کی صورت میں ہم سب جانتے ہیں۔۔
ہم شاید وہ آخری نسل ہیں جس نے نے ٹی وی پر تفریح کا ادبی دور دیکھا ہے۔ بہترین اردو مکالموں سے مزین ڈرامے، قابلیت کی بنا پر منعقد گیم شو، کانوں میں رس گھولتی موسیقی، بچوں اور بڑوں کے لیے تفریحی پروگرامز، ہر موقع کی مناسبت سے مخصوص ٹرانسمیشنز۔
ہم نے ٹی وی کا بہترین دور دیکھا ہے، بہترین لکھاریوں کے قلم سے نکلے ڈرامے جو بہترین اداکاروں نے بخوبی پیش کیے، اخلاقیات کے دائرے میں لکھی عام گھروں کی کہانیاں۔۔۔۔ ان کہی، دھوپ کنارے، تنہائیاں، آنگن ٹیڑھا، نجات، عروسہ، طارق عزیز شو، کسوٹی، صبح کی نشریات چاچا جی کے ساتھ، انکل سرگم۔۔۔۔۔۔
آج ڈرامے کے نام پر ہر چینل پر تقریبا خاندانی سیاست، ساس بہو کے مسئلے، نوجوان نسل کو خودکشی اور سر کشی کی ترغیب دیتی کہانیاں، بے راہ روی کا شکار مرد و زن کے قصے، مزاح کے نام پر بیہودگی اور تفریحی گیم شو کے نام پر چھچھورپن، موسیقی کے نام پر بندروں کی طرح اچھلتے کودتے چیختے چلاتے نوجوان۔۔۔۔
نہ کسی اسلامی مہینے کی اہمیت و افادیت بتائی جا رہی ہے نا احترام سکھایا جا رہا ہے۔ احترام چھوڑیے۔۔۔ 5 وقت کی نماز نہیں نشر کی جا رہی تھیں۔ ہمارا بچپن پی ٹی وی پر اذان اور اذان کے بعد کی دعا سنتے گزرا جو الحمداللہ سن سن کر ہی یاد ہوگئی اور آج بھی یاد ہے۔۔ رمضان کے دنوں میں اللہ تعالی کے صفاتی نام کی ویڈیو جس کے ساتھ ساتھ نام دوہراتے کتنے بچوں کو اللہ کے نام یاد ہوگئے تھے، خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کی توسیع کے مناظر بچے بڑے یکساں عقیدت سے دیکھتے تھے، محرم الحرام کے شروع ہوتے ہی پی ٹی وی سے موسیقی کا عنصر غائب ہوجاتا تھا۔۔۔ بنا موسیقی کے خبرنامہ اور بنا ٹائٹل میوزک کے ڈرامے۔ کثرت سے مرثیے اور نوحے ہمارے تجسس کا باعث بنتے تھے کہ آخر ٹی وی پر کچھ اچھا کیوں نہیں آرہا؟ جب سوال داغا جاتا تھا تو جواب بھی موصول ہوتا تھا اور اسلامی تاریخ بھی پتہ چلتی تھی۔سنی گھرانے سے تعلق ہونے کے باوجود تاکید کی جاتی تھی بلکہ بار بار یاد دہانی کروائی جاتی تھی کہ مکمل واقعہ کربلا جاننے کے لیے محرم کو شام غریباں سنا جائے۔ علامہ طالب جوہری(مرحوم)کا بیان ننھے ذہنوں میں کربلا کے میدان کا نقشہ کھینچ دیتا تھا اور پھر کسی کو ہمیں کہنے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی کہ “محرم کا احترام کرو۔ ”
بنا میوزک کے بہت سی حمد، نعت، مرثیے، نوحے اس وقت کے بچوں کو یاد کروانے میں بھی پی ٹی وی کا بڑا ہاتھ تھا۔ دوپٹہ کلچر سے پی ٹی وی نے ثابت کیا تھا کہ کسی کردار کو نبھانے یا خبریں پڑھ کر سنانے کے لیے خواتین کا سر سے دوپٹہ اتارنا ضروری نہی۔ اس وقت مقابلہ بازی نہیں تھی تو ریٹنگ اور ٹی آر پی کی دوڑ بھی نہیں تھی شاید، بلاشبہ پی ٹی وی اپنے آپ میں ایک استاد ایک مکمل درسگاہ کی حیثیت رکھتا تھا۔ایک بہترین دور تھا جو اب ختم ہوا۔۔۔ آپ مانیں یا نا مانیں مگر میرا ماننا ہے کہ کسی بھی معاشرے کی تربیت میں وہاں کے فنون لطیفہ کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔۔۔ پہلے زمانے میں تھیٹر ہوتے تھے، ایک چینل تھا جس طرف ذہنوں کو موڑنا چاہتا تھا موڑ دیتا تھا۔ اس ہی پی ٹی وی نے دوپٹہ پالیسی جب اپنائی تھی تو ماڈرن سے ماڈرن خواتین نے اسٹائلش طریقے سے “دوپٹے سر پر رکھنے کا فیشن” فالو کیا تھا۔۔۔ اس ہی ٹی وی نے اس وقت کے بچوں میں معلومات عامہ کا شوق پیدا کیا تھا کسوٹی اور نیلام گھر جیسے شوز کی مدد سے۔۔۔ اس ہی ٹی وی نے بچوں کو دعایئں، قصیدہ بردہ شریف، نعتیں اور بہت سے ملی نغمے یاد کروائے تھے۔۔۔ وہی ٹی وی تھا جہاں دنیاوی معلومات کے ساتھ ساتھ دینی تربیت بھی ہوتی تھی۔۔۔ بچوں کی قرآت کے پروگرام میں تلفظ بھی سکھایا جاتا تھا۔۔۔ ٹی وی کے اندر موجود قاری صاحب کو ٹی وی کے باہر بیٹھے بچے اگر با آواز بلند سلام اور وعلیکم سلام نہ کرتے تو کمر پر چپل رسید ہوتی تھی۔۔۔ سادہ لوگ۔۔۔ سادہ زمانے اور سادہ سا ہمارا پی ٹی وی ہوتا تھا۔۔۔۔
ظاہر سی بات ہے۔۔۔جو چیز بار بار دکھائی جائے وہ ذہن پر اپنا نقش چھوڑ ہی جاتی ہے۔۔۔۔ ان چار دہائیوں میں ہم بہت آگے نکل آئے ہیں۔۔۔ اتنا آگے کہ ایک بہترین دور، اردو ادب، اپنی اقدار، شاید بہت پیچھے چھوڑ آئے ہیں۔ ہماری مایئں اس صدی کی وہ آخری مایئں تھیں جو بنا خوف کے ہمیں ٹی وی کے سامنے اکیلا چھوڑ دیتی تھیں کہ انہیں یقین تھا کہ کچھ اچھا ہی سیکھیں گے، کم از کم خرافات نہیں سیکھیں گے۔۔۔ اب تو اس انٹرنیٹ کے دور میں ہزار چور راستے موجود ہیں۔۔۔ موجودہ نسل کیا پروان چڑھی ہے وہ آپ سب کے سامنے ہی ہے۔۔۔۔ زینب کے قصے سے نور کی کہانی تک۔۔۔ کس قدر فرسٹریشن سے بھری جنریشن تیار ہوئی ہے کہ صد تف ہے اس پر۔۔۔۔ ابھی نور کے قصے سے نکلے نہیں تھے کہ مینار پاکستان کا واقعہ۔۔۔ واقعہ بھی ایسا کہ جس کے ساتھ لفظ پاکستان لگاتے ہوئے سر شرم سے جھک جائے۔۔۔
معذرت کے ساتھ، اگر آپ میری رائے سے اختلاف رکھتے ہیں تو حق ہے آپ کا۔۔۔ آپ اپنا نظریہ رکھتے ہیں مگر میرا ماننا ہے کہ جو کچھ بھی آپ کا میڈیا آپ کو دکھائے گا آہستہ آہستہ ہمارے لیے وہ ہی سب نارمل ہوتا جائے گا، ہم اسے صحیح غلط، گناہ ثواب کی تفریق کے بنا قبول کرتے چلے جایئں گے۔۔۔ اور میڈیا آج کل کیا دکھا رہا ہے اور جو ہم دیکھ رہے ہیں وہ آپ سب جانتے ہی ہیں۔۔۔ خبروں سے لے کر ڈراموں تک، تفریحی پروگرامز سے لے کر اشتہارات تک۔۔۔۔ بے شک نسلوں کی تربیت میڈیا کی ذمہ داری نہیں، مگر آپ کو یہ ماننا پڑے گا کہ اس کا ایک بڑا ہاتھ ضرور ان کی تربیت میں شامل ہے۔۔۔ ایک بد ترین، کنفیوز، ناکام اور جنسی طور پر فرسٹریٹڈ تیار نسل ہمارے سامنے پہلے ہی کھڑی ہے۔۔۔ مگر یہ آخری نسل نہیں۔۔۔ کوشش کریں کہ آنے والی نسلیں انسان کے بچوں کی ہوں نا کہ بے قابو زومبیز کی۔۔۔ انسان کا مطلب جانتے ہیں نا آپ، اشرف المخلوقات، جو تمام مخلوق میں افضل ہے، عقل اور شعور رکھتا ہے، درندگی کا عنصر نہیں ہے جس میں۔۔۔ جی وہی انسان۔۔۔۔ !
بشکریہ مرکزی خیال حنا بھٹی صاحبہ کا ترمیم کے ساتھ
٭٭٭