لیجیئے جناب ضمنی انتخاب بھی ہو گئے، امید یہ تھی کہ اس بار 8 فروری جیسا انتخابی ڈرامہ نہیں رچایا جائیگا کہ ان انتخابات کے نتیجے سے نہ وفاق اور نہ کسی صوبے کی اکثریت و اقلیت پر فرق پڑیگا اور نہ حکومت مستحکم یا متزلزل ہونے کا کوئی معاملہ بنے گا لیکن اس کے باوجود مبصرین کے مطابق ضمنی انتخابات، عام انتخابات کا ری پلے ہی ثابت ہوئے۔ سب سے زیادہ افسوسناک مرحلہ گجرات کے الیکشن میں سامنے آیا۔ بغض عمرانیہ میں چوہدری پرویز الٰہی اور مونس الٰہی کو اس طریقے سے ہروایا گیا اور وہ بھی اس طرح کہ گھر کے چراغوں سے گھر کو جلانے کا بندوبست کر دیا گیا۔ چوہدری ظہور الٰہی مرحوم کا خانوادہ پنجاب میں گجرات کے سیاسی حوالے سے متحد و مقتدر گردانا جاتا تھا، مقتدرین کے عمران مخالف کردار نے اس خاندان کو منقسم و منتشر ہی نہیں ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے کہ چوہدری وجاہت کے بیٹے موسیٰ الٰہی نے پرویز الٰہی کو فتح سے دور کیا تو ن لیگ کے امیدوار نے مونس الٰہی کو ہرا کر فتح حاصل کی۔ چوہدری پرویز الٰہی کی اہلیہ اس دوران دربدر دوڑتی اور پریشان رہیں۔ بعض مبصرین اور تجزیہ کاروں کا یہ مؤقف مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ ضمنی انتخابات میں عموماً اقتدار کی حامل پارٹی کو بوجوہ ایج (Edge) حاصل ہوتی ہے اور کامیابی کے امکانات ہوتے ہیں۔ اس بات سے بھی انکار نہیں کہ حالیہ ضمنی انتخاب میں ان نشستوں پر الیکشن ہوئے جو متعلقہ جماعتوں کے اہم رہنمائوں، قائدین کی خالی کردہ ہوئی ہیں کیا یہ بھی مانا جا سکتا ہے کہ لاہور، قصور کی نشستیں شہباز، مریم، حمزہ کی چھوڑی ہوئی انتخابی نشستیں نواز لیگ کی محفوظ تھیں مگر کیا اس حقیقت کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے کہ 8 فروری کے نتائج کو 9 فروری کو فارم 47 کے ذریعے تبدیل کر دیا گیا تھا تو ایسے میں یہ کیسے یقین سے کہا جا سکتاہے کہ متعلقہ حلقوں میں نواز لیگ مضبوط تھی۔ ہم نے فارم 47 کا اوپر ذکر کیا ہے اس بار تو شنید یہ ہے کہ فارم 45 پر ہی کام دکھا دیا گیا ہے۔ اس کی ایک نظیر تویوں سامنے آئی ہے کہ پنجاب کے ایک حلقے کے پریذائیڈنگ افسر نے ووٹوں کے شمار اور درج کئے جانے سے قبل پولنگ ایجنٹس سے دستخط کروانے کا اقدام کیا اور راز افشاء ہونے پر تمام فارم 45 پھاڑ دیئے۔ بات اس ایک واقعہ پر ہی محدود نہیں خبریں تو یہ بھی ہیں کہ اس بار سول اہلکار نہیں عسکری عمال ٹھپہ لگانے پر مامور تھے۔ اس صورتحال کی مووی بنانے پر 92 نیوز کے نمائندہ بلال اور دونوں فوٹو گرافرز کے علاوہ دیگر چینلز کے چند صحافیوں کو اس پاداش میں غائب کر دیا گیا، خبر یہ ہے کہ انہیں گرفتار کر کے ایجنسیز کے حوالے کر دیا گیا ہے، ان سطور کے لکھے جانے تک ان صحافیوں کی واپسی یا رہائی کی کوئی خبر نہیں آئی تھی۔
پی ٹی آئی، سنی اتحاد کے ضمنی انتخابات کو ڈھونگ قرار دینے اور احتجاج کے باوجود چیف الیکشن کمشنر کا یہ دعویٰ کہ انتخابات پُر امن و منصفانہ ہوئے، ایک مذاق ہی لگتا ہے۔ مختلف حلقوں سے انتخابی بد عملیوں اور سیاسی جماعتوں کے کارکنوں میں جھگڑوں اور نارووال میں 60 سالہ کارکن کی ہلاکت کی مختلف چینلز اور سوشل میڈیا پر خبریں شاید چیف الیکشن کمشنر کی نظر سے گزری ہی نہیں یا پھر ان کے چیف صاحب، (جنگل کے بادشاہ) کے حکم کے بموجب نظر انداز کر دی گئیں۔ حیرت تو اس بات پر بھی ہے کہ عدل و انصاف کے چیف صاحب کی جانب سے بھی سیاسی کارکن کی ہلاکت پر کوئی سوموٹو (از خود نوٹس) سامنے نہیں آیا۔ البتہ یہ امر واضح نظر آتا ہے کہ قیدی نمبر 804 اور پی ٹی آئی کے معاملات پرتینوں چیفس ”یک جان تین قالب” ہیں اور اپنے اپنے دائرہ کار میں مستعد و فعال ہیں۔ انہیں کوئی فکر نہیں کہ عوام کے احساسات و خیالات اس حوالے سے کیا ہیں۔
سوال یہ ہے کہ موجودہ عالمی صورتحال میں جب ایک جانب اسرائیل کی فلسطینی عوام پر گزشتہ 6 ماہ سے ظلم و بربریت اور قتال کا سلسلہ تھم نہیں رہا ہے، ایران و اسرائیل تنازعہ نہ صرف خطۂ عرب و حجاز میں بلکہ عالمی ناہمواری و محاذ آرائی کے دہانے پر کھڑا ہوا ہے اور امریکہ اسرائیل کی حمایت میں مسلسل ویٹو کر رہا ہے تو دوسری جانب پاکستان ایران گیس پائپ لائن معاہدہ بھارت ہی نہیں امریکہ سمیت مغربی دنیا کو سخت کھٹک رہا ہے۔ ایرانی صدر کی آمد سے قبل ہی امریکی کانگریس کا ایران سے تیل لینے والے ممالک پر پابندی کے بل کی منظوری کیساتھ پاکستان میزائل تعاون پروگرام میں چار امریکی کمپنیوں پر الزام لگا کر پابندی لگا دی۔ اگرچہ وزارت خارجہ نے اس معاملہ پر احتجاج کیا ہے لیکن نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے۔ امریکہ کے اقدامات بے معنی نہیں، روس، چین، ایران اور ساتھی ممالک کیخلاف معاشی و عالمی تنازعات کے پس منظر اور اسرائیل و بھارت کی حمایت و سپورٹ کی غرض سے یہ امریکی کانسپریسی اپنے منہ سے بول رہی ہے۔ پاکستان کیخلاف متذکرہ بالا اقدام جہاں ایران پاکستان پائپ لائن منصوبے کے ناکام بنانے کی کوشش ہے، بھارت میں الیکشن کے حوالے سے مودی کی پاکستان دشمن کمپیئن کو سپورٹ کرنا ہے وہیں پاکستان کی معاشی جدوجہد میں رخنے ڈالنا ہے۔ یہ حقیقت ڈھکی چھپی نہیں کہ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک و دیگر مالیاتی ادارے امریکی ماتحتی میں کام کرتے ہیں۔
ان تمام عالمی حقائق اور پاکستان کی حالیہ سیاسی و معاشی مشکل صورتحال کے پیش نظر ہونا چاہیے تو یہ ہے کہ تمام ادارے، اسٹیک ہولڈرز، ملکی سیاسی و معاشی عدم استحکام کے خاتمے کیلئے ذاتی و تنازعتی اختلافات سے بالا تر ہو کر ملکی مفادات و یکجہتی پر آئیں لیکن کیا ہم بطور قوم اس نہج پر ہیں یہاں تو حالت یہ ہے کہ سیاست، ریاست، عدالت، حکومت، تجارت غرض کوئی بھی شعبہ ملکی مفاد کیلئے نہ سوچتا ہے نہ عمل کرتا ہے، جس سے نہ صرف مفادات کا سکہ رائج رہتا ہے بلکہ تلخیاں اور محرومیاں نفرت کی حد تک بڑھ کر قومیت کو نقصان پہنچاتی ہیں۔ وطن عزیز کے موجودہ حالات میں ملک کے سب سے مقبول رہنما اور اس کی جماعت کیساتھ جو روئیے اور اقدامات جاری ہیں اس سے عوام میں ریاست، عدالت اور انتخابی ادارے کے چیفس کیخلاف جو رد عمل سامنے آرہا ہے وہ ہر گز پاکستان اور قومی یکجہتی کے حق میں نہیں۔ اس کی ایک مثال صدر پاکستان کے جوائنٹ ایوان سے خطاب میں سروسز چیفس کی عدم شرکت ہے۔ ہماری ایک ہی درخواست ہے کہ ریاستی، عدالتی اور انتخابی چیفس پاکستان کے عوام، سالمیت اور انصاف کے حوالے سے اپنے روئیوں اور عمل پر نظر ثانی کریں۔ موجودہ حالات میں بہتری فرمائیں۔ گلوکار سجاد علی کے بقول بس بھئی بس زیادہ بات نہیں چیف صاحب”۔
٭٭٭