قارئین آج میں ڈاکٹر حسام الدین آشنا کی ایک یاداشت لکھ رہا ہوں ۔ اسے من و عن پڑھنے کے بعد میرا نوٹ ضرور پڑھیے گا۔ترجمہ فارسی کے نیچے میں نے اپنا نوٹ لکھا ہے۔ڈاکٹر آشنا نے اپنی یادداشت میں یوں لکھا ہے۔
تقریبا بیس سال پہلے ہمارا گھر 17 شہریور تہران میں واقع تھا اور ہم اپنے محلہ کی مسجد میں نماز جماعت ،عزاداری،محافل جشن وغیرہ کے لئے جایا کرتے تھے- مسجد کے پیش نماز اوربزرگ عالم دین شیخ حاجی آغا ہادی تھے کہ جو سب کے لئے مورد اعتماد و اعتبار شخصیت کے مالک تھے۔میں ایک روز مغربین کی نماز کے لئے مسجد گیا اور جب وضو کرنے کے لیے نیچے کی منزل پر پہنچا تو بیت الخلا جانے کے لئے منتظر تھا کہ اتنے میں ایک بیت الخلا کا دروازہ کھلا اور جناب حاجی آغا ہادی باہر نکلے۔ ہماری آپس میں سلام و دعا ہوئی اور جناب آغا ہادی وضو کئے بغیر وہاں سے چل دئیے – مجھے بڑی حیرت ہوئی اور میں یہ دیکھنے کے لئے ان کے پیچھے پیچھے گیا کہ جناب کہاں وضو کریں گے؟ اور پھر کمال حیرت سے میں نے دیکھا کہ جناب آغا ہادی بغیر وضو کئے ہوئے محراب میں داخل ہوئے اور فورا اذان و اقامت کہنے کے بعد نماز جماعت پڑھانا شروع کردی اور تمام نمازیوں نے بھی جناب کی اقتدا کی- میرا تو دماغ بالکل چکرا گیا تھا جلدی سے اپنے پڑوسی حاجی علی کے پاس گیا اور کہا: جناب ہادی کا وضو نہیں ہے! میں نے خود ان کو بیت الخلا سے باہر نکلتے دیکھا ہے اور اس کا بھی گواہ ہوں کہ انہوں نے وضو نہیں کیا۔
حاجی علی کو مجھ پر مکمل اعتماد تھا حیرانگی سے کہنے لگے: اچھا ٹھیک ہے فرادی پڑھ لیتا ہوں۔یہ ماجرا متدین حضرات کے درمیان جنگل کی آگ کی طرح پھیل گیا۔ میں اور میرے تمام احباب نے اللہ کی رضا کی خاطر جناب ہادی کے وضو نہ کرنے والے قصہ سے سب کو آگاہ کردیا اور مامومین آہستہ آہستہ جناب ہادی کے اطراف سے متفرق و منتشر ہوتے گئے۔ یہاں تک کہ چند دن کے بعد جناب کے اہل خانہ بھی باخبر ہوگئے۔ ان کی بیوی ناراض ہوکر اپنے میکیچلی گئی ۔ان کے بچوں نے بھی اس بے عزتی اور خفت کیباعث اپنے باپ کو تنہا چھوڑ دیا۔ ہر طرف جناب ہادی کیمشکوک ہونے کا قصہ گردش کر رہا تھا کہ اصلا حقیقتا یہ شخص مسلمان بھی ہے؟؟ آیا جاسوس ہے؟یا کسی کا ایجنٹ ہے۔ہم سب دوست خوش تھے کہ شرعی فریضہ کر دیا۔ جناب ہادی نے کچھ عرصہ بعد ہمارا محلہ چھوڑ دیا اور پھر ان کی کوئی خبرنہ رہی ۔اس واقعہ کے دو سال بعد میں اپنی اہلیہ کے ہمراہ عمرہ سے مشرف ہوا اور مکہ میں آب و ہوا کی تبدیلی کی وجہ سے بیمار ہوگیا۔ واپس ہونے کے بعد ڈاکٹر کو دکھایا اور ڈاکٹر نے میرے لئے دوا اور انجکشن تجویز کئے ۔اگلے دن نماز کے لئے جاتے ہوئے سوچا کہ راستے میں انجکشن بھی لگوا لونگا۔انجکشن لگواکر مسجد گیا اور چونکہ ابھی نماز کا وقت نہیں ہوا تھا اس لئے بیت الخلا گیا تاکہ انجکشن کی جگہ کو پاک کرلوں۔ بیت الخلا سے باہر نکلتے ہوئے ،ناگہاں مجھے جناب ہادی کا خیال آیا اور میری آنکھوں کے آگے اندھیراساچھاگیا۔سب بدگمانیاں میرے چاروں طرف تیزی سے گھومنے لگیں جیسے وزنی پہاڑ میرے سر پر آن پڑے ہوں۔اور میں سوچنے لگا کہیں ایسا تو نہیں وہ بیچارہ ہادی بھی انجکشن کی جگہ پاک کرنے گیا ہو!
کہیں ایسا تو نہیں میں نے گناہ کیا؟ کہیں ایسا تو نہیں میں نے ظلم کیا؟
پھر مجھے نہیں معلوم کہ کیا ہوا؟ واپس گھر آگیا صبح تک نیند نہیں آئی اور جناب ہادی کے بارے میں سوچتا رہا کہ کس طرح سے میں اور میرے نادان دوست اور مجھ سے زیادہ نادان و کم عقل متدین لوگوں نے نا سمجھی میں قربت کی نیت سے ایک شریف انسان کی حیثیت،عزت و آبرو کو خاک میں ملادیا،ان کے گھر کو تباہ کردیا!
اگلے روز سیبدحواسی کے عالم میں،میں نے جناب ہادی کی تلاش شروع کردی ۔حاج ابراہیم کے پاس گیا اور ان سے کہا: مجھے ضروری کام ہے اس لیے جناب ہادی کو تلاش کررہا ہوں۔وہ کہنے لگے: بازار شاہ عبدالعظیم میں ان کے ایک دوست حاجی احمد تھے۔ وہ کبھی کبھی ان سے ملاقات کے لئے جایا کرتے تھے ۔حاجی احمد عطار تھے۔وہاں سے فورا بازار شاہ عبدالعظیم گیا اور میں نے دیکھا کہ ایک بزرگ قرآن کی تلاوت میں مصروف ہیں۔ میں نے سلام کیا اور جناب ہادی کے بارے میں پوچھا۔
انھوں نے مہربانی سے میرے سلام کا جواب دیکر بتایا کہ:دوسال پہلے جناب ہادی بہت زیادہ پریشان و غمزدہ اور اجڑی بکھری حالت میں میرے پاس آئے تھے ۔میں نے کبھی بھی اس طرح ان کو نہیں دیکھا تھامجھے بہت تعجب ہوا اور میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگے:
میں انجکشن کی وجہ سے بیت الخلا طہارت کے لیے گیا تھا اور متدین حضرات نے بجائے مجھ سے معلوم کرنے کے مجھ پر الزام لگایا کہ بغیر وضو کئے نماز پڑھا دی۔ قصہ مختصر اے حاج احمد ان لوگوں نے میری عزت و آبرو خاک میں ملادی ہے۔میرے گھر کو برباد کردیا ہے اس شہر میں میری کوئی توقیر باقی نہیں چھوڑی۔ میں اس شہر میں نہیں رہ سکتا۔بس آپ گواہ رہنا کہ میرے ساتھ ان لوگوں نے کیا کیا اس کے بعد کہنے لگے: میں یہ شہر چھوڑ کر عراق جارہا ہوں اور حضرت امیرالممنین حضرت علی علیہ السلام کے حرم میں مجاوری کروں گا اور باقی عمر وہیں گزاروں گا، وہ چلے گئے اور اس دن سے مجھے ان کی کوئی خبر نہیں ہے….
ناگہاں میرا دل امڈا اور آنسو بہنے لگے کہ اے میرے خدا!
میں یہ کس غلطی کا مرتکب ہوگیا ہوں! اور اب اس واقعہ کو تقریبا 20 سال ہوگئے ہیں اور جو بھی نجف اشرف جاتا ہے میں اس سے جناب ہادی کا پوچھتا ہوں لیکن افسوس مظلوم ہادی کی کوئی خبر نہیں ہے۔
دوستو! ہم ہر روزانہ کتنے لوگوں کی عزت و آبرو خاک میں ملاتے ہیں؟
ایک جملہ سے کتنی زندگیوں کو نابود کرتے ہیں؟
جبکہ خدا کہتا ہے تجسس نہ کرو
دوسروں کے کھوج نہ لگا…. !ترجمہ فارسی تمام شد
نوٹ:۔ از ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی
عمید الحوزہ العلمیہ امریکا
طلاب عزیز،قارئین کرام ، بزرگان، برادران و خواہران!
یہ حال ایران کا ہے جو مادر علمی ہے۔ ہم تو کسی گنتی میں نہیں۔کتنے مولانا! جناب ہادی کی طرح ناکردہ گناہوں کی پاداش میں پیش نمازیوں سے محروم ہو گئے ہوں گے اور کتنے ڈاکٹر حسام الدین آشنا بیس بیس سال سے جناب ہادی جیسے مولانا کو تلاش کر رہے ہوں گے ۔معافی تلافی کرلیں مگر وہ مولی علی کے جوار میں پہنچ کر درد دل بیان کر رہے ہوں گے۔ہو سکتا ہے وہ اللہ کو پیارے ہی ہو گئے ہوں۔ کتنے حاجی علی ایسے ہیں جنکے ماتھوں پر محرابوں کے نشان ہیں مگر انہیں حسن ظن نام کی کوئی شے نصیب نہیں۔افسوس صدر افسوس مسجد بھی ڈاکٹر آشنا اور حاجی علی کو نہ بدل سکی۔یا اللہ آشنا جیسے ڈاکٹر وں، حاجی علی جیسے حاجیوں کی بدگمانیوں سے محفوظ رکھنا اور انہیں دوسروں کی جاسوسیوں کی بجائے اپنے اعمال پرنظر رکھنے کی توفیق دینا۔ آمین
٭٭٭