مٹی کا باوا!!!

0
11

قارئین کرام! ۔ آپ جانتے ہیں اللہ رب العزت نے اس کائنات کو تخلیق کیا۔ آسمان، سمندر اور زمین پیدا فرمائی۔ایک حصہ کو زمین اور تین حصوں کو پانی میں تقسیم کیا۔ پھر اسی مٹی سے کھربوں چہروں کی الگ الگ صورت تخلیق کی ، اسی مٹی سے ہیرے، جوہرات،سونا، تانبہ، لوہا، کوئلہ، پتھر ، تیل ، گیس ،پانی ،دوسری معدنیات۔پھر تازہ پھل اور سبزیاں ، یہ سبھی انسانی ضرورت کی چیزیں ۔اور پھر اسی مٹی سے انسان کو بنایا گیا ، اسی مٹی میں میں دوبارہ دفن ہوگا، یہ اکٹر اور ناشکری کس چیز کی۔ اللہ رب العزت تخلیق ہے ، نظام زندگی چلاتا ہے۔ کائنات کا زرہ زرہ اس کا محتاج ہے۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ پھل درخت کے اندر سے نہیں آتایقین نہیں تو درخت کاٹ کے دیکھ لیں،لکڑی ہی لکڑی ہے۔رزق زمین کے اندر سے نہیں آتا ۔یقین نہیں تو کھدائی کرکے دیکھ لیں،مٹی ہی مٹی ہے۔یہ سب اللہ جل شانہ کے حکم سے آتا ہے۔چاہے زمین سے نکالے یا آسمان سے اتارے۔ جب اللہ کی مرضی کے بغیر کائنات کا ایک پتہ بھی نہیں ہل سکتا تو ہمارا بار بار اللہ سے رجوع کرنا، اس سے مانگنا بے وجہ نہیں ہے جو ہمارے ہاتھوں میں جان ڈال دیتا ہے کہ وہ دعا کے لئے اُٹھیں اور پھر ان اُٹھے ہاتھوں کی لاج بھی رکھتا ہے۔ بندہ اس مالک کائنات کا شکر ادا کیوں نہ کرے۔انسان تھوڑی تکلیف پہنچنے پر فورا مایوس ہو جاتا ہے جبکہ اللہ کے مخلص بندوں کا حال مختلف ہوتا ہے۔وہ ایک تو دنیا کے طالب نہیں ہوتے، ان کے سامنے ہر وقت فکرآخرت رہتی ہے۔ اور وہ لوگ تکلیف پہنچنے پر اسکی رحمت اور فضل سے مایوس اور نااُمید نہیں ہو جاتے ،وہ جانتا ہے دنیا کی آسائشوں میں کمی بیشی اللہ کی محبت۔ یا ناراضگی نہیں ہے بلکہ اللہ آزماتا ہے کہ اس کی نعمتوں کا شکر کون ادا کررہا ہے۔تکلیفوں اور بیماریوں میں کون صابر ہے،ہم حقارت، بغض، حسد کی بیماریوں کا شکار ہیں۔ ایک دوسرے کو حقیر اور کمتر سمجھتے ہیں۔ حالانکہ جانتے ہیں کہ منصب ،طاقت،دولت ایک جھٹکے میں اور خوبصورتی ایک بیماری میں فنا ہو جاتی ہے ۔خوبصورتی اور دولت پر اکٹر اور غرور، انتہائی گھاٹے کا سودا ہے۔ انسان ہمیشہ ذاتی مفادات کا دفاع کرتا ہے۔ذاتی فائدے کے لئے اخلاقی قدریں بھول جاتا ہے۔ سب رشتوں کو چھوڑ کر بے اصولی کو ترجیح دیتا ہے۔ دوسروں کو کمتر سمجھتا ہے۔یہ بھول جاتا ہے کہ دنیا مکافات عمل ہے۔حضرت موسیٰ کلیم اللہ تھے، روزانہ اپنے رب سے ہمکلام ہوتے گئے، ایک دن حکم ہوا کہ موسیٰ اپنے سے کمتر کو تلاش کرکے لے آئو ۔موسیٰ علیہ سلام نے حکم خداوندی سے ساری کائنات چھان ماری ۔مگر کسی کو اپنے سے کمتر نہ پایا۔ شام کو خالی ہاتھ واپس لوٹے۔ اللہ رب العزت نے فرمایا اے موسیٰ اگر آپ بکری کے ایک بچے کو ہی لے آتے تو ہم آپ کو نبوت سے محروم کردیتے ۔ اس لئے کسی کو اپنے سے حقیر مت سمجھو۔ اللہ رب العزت نے ہر کسی میں کوئی نہ کوئی خوبی رکھی ہوتی ہے۔بحثیت انسان ہم آزمائشوں سے تو گھبراتے ہیں،ہم مصیبتوں ، مشکلوں اور تکلیفوں پر رنجیدہ تو ہوتے ہیں مگر عنائیتوں ،انعامات اور احسانات پر شکر ادا نہیں کرتے۔بحیثیت مجموعی ہم خوشی ،امن، راحت، سکون اور خوشحالی کے لمحات پر اللہ واحدہ لاشریک کا اتنا شکر ادا نہیں کرتے ۔ جتنی نعمتوں کو سمیٹتے ہیں ۔ یہ مٹی کا باوا بڑا ہی ناشکرا ٹھہرا ہے۔رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔ ایک شخص کی آزمائش اس کے ایمان کے حساب سے آتی ہے۔ اگر ایمان پختہ اور مضبوط ہو۔ تو اس کی آزمائش بھی زیادہ ہوتی ہے۔ اگر ایمان کمزور ہو تو اس کی آزمائش اس حساب سے کم ہوتی ہے۔جن پر مسلسل آزمائشیں آتیں ہیں۔اللہ رب العزت انکے بدلے گناہوں کو معاف فرماتے ہیں۔ اللہ کریم کو توبہ و استغفار پسند ہیں۔استغفار سے ہماری اکٹر اور تکبر میں کمی آتی ہے۔ جتنا اللہ بارک کے سامنے جھکتے ہیں۔مزاج ، کردار اور اخلاق میں نرمی آتی ہے۔ انصاف اور اصول پسندی رواج پاتی ہے۔اللہ کا خوف پیدا ہوتا ہے اگر انسان دیندار ہو تو وہ بدیانت ،بداخلاق اور بد نیت نہیں ہوسکتا،ایسی صورتحال میں دین انسان کے اندر داخل نہیں ہوا ہوتا۔انسان بہت بے صبرا ٹھہرا ہے۔ جب اللہ رزق کی فروانی عطا فرماتا ہے تو مالی لخاظ سے کمزور لوگوں سے رویہ تبدیل کر لیتا ہے۔ جب کوئی منصب یا ذمہ داری سونپی جاتی ہے تو اس میں خیانت کرتا ہے۔دانشور لوگ کہتے ہیں ،جب درختوں پر اوقات سے زیادہ پھل لگ جائے تو اس کی ڈالیاں ٹوٹنا شروع ہوجاتی ہیں،انسان کو اوقات سے زیادہ مل جائے تو رشتوں کو توڑنا شروع کردیتا ہے۔
جیسے درخت اپنے پھل سے محروم ہو جاتے ہیں ۔ ایسے ہی انسان رشتوں سے محروم ، دولت اور منصب آنی جانی چیزیں ہیں،ان پر اترانا، کمزوروں سے تعلقات خراب کرلینا۔
جب انسان کی جان نکل جائے وہ زندہ نہیں رہتا ۔اور جس انسان سے احساس نکل جائے تو وہ انسان نہیں رہتا۔ زندگی چند روز کی ہے ۔ ایک دن ہمارے حق میں ، دوسرے دن ہمارے مخالف۔ جس دن ہمارے حق میں ہو۔غرور اور تکبر سے اجتناب ہی انسانیت ہے۔
انسان کی اصل جنگ اس کے نفس سے ہوتی ہے۔ لوگوں کے سامنے انسان گناہوں سے کنارہ کشی کر ہی لیتا ہے۔ لیکن اصل جنگ تنہائی کے لمحوں میں ہوتی ہے۔ جب انسان بندوں سے نہیں اللہ کریم سے خوف کھاتے ہوئے گناہوں سے مخفوظ رہتا ہے۔جب دنیا میں کرونا کی وبا پھیلی۔ خوف اور دہشت کا منظر تھا۔ قیامت کی قربت کا احساس ہر سو تھا۔ہر طرف خاموشی اور ہو کا عالم تھا۔کارخانے اور مشنری بند ۔ انسان تو کیا پرندے بھی خاموش ھو چکے تھے۔
ہسپتالوں میں لاشوں کے انبار۔ خوف کا یہ عالم تھا کہ لوگ کرونا کے خوف سے اپنے سگوں کے جنازے کو کندھا دینے سے ڈرتے تھے۔میں نے ان دنوں انسان تو کیا پرندوں کو بھی خاموش دیکھا۔خوف کو پرندے بھی محسوس کرتے ہیں ۔خضرت انسان قبر کی سختی اور یوم آخرت کو محسوس اور قبول کیوں نہیں کرتا۔
اور نہ اللہ سے ڈرتا ہے۔جو لوگ اللہ سے ڈرتے ہیں ۔وہ کسی سے دھوکہ نہیں کرتے۔ وہ اپنی نمازوں کی خفاظت کرتے ہیں۔کسی کا حق نہیں کھاتے۔وعدوں کا پاس کرتے ہیں۔ہمارے معاشرہ میں بہنوں کو حق وراثت سے محروم رکھنا۔ یا انکو شرعی اعتبار سے وراثت میں حق نا دینا۔ ایک عام معمول ہے۔
ہم اصول پسندی کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں۔لیکن جب ماں باپ اور بہنیں بہو کو بیاہ کرلاتی ہیں۔بہت
نخرے اٹھاتی ہیں ۔ تھوڑے ماہ بعد بہو برداشت نہیں ہوتی – تو پھر بہو گھر کے دروازے نندوں کے لئے بند کرتی ہے۔ ساس سسر کو گھر سے نکال باہر کرتی ہے،بیٹا یہ سارا منظر بے حسی اور بے حیائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ۔ خاموشی سے دیکھتا ہے۔
ہماری دینداری ، واعظ و نصیحت کا اندازہ امانت میں خیانت سے ہوتا ہے۔ لمبی داڑھی، گھٹنوں کے اوپر شلوار کا کیا فائدہ جب تولنے اور بولنے میں ایمانداری کو لپیٹ کر بددیانتی کی چادر اوڑھ لی جائے۔قارئین !۔ہمارے اندر ایک مولوی چھپا ہے۔ جسے ہم کسی کو گناہ کرتے دیکھ کر ظاہر کرتے ہیںلیکن یہ مولوی بڑا سیانا ہے۔ اپنے گناہوں ، اپنی بداعمالیوں اور بددیانتی پر آنکھیں بند کرلیتا ہے۔قرآن مجید میں جتنی بھی تباہ قوموں کا ذکر ہے۔ کوئی بھی قوم نماز، روزہ یا عبادات کی وجہ سے تباہ نہیں ہوئی تھی۔انکی تباہی کے پیچھے ناانصافی،ظلم،خیانت ،کم تولنا اور دوسروں کا حق کھانا تھا۔ آج ہم وہی کام کررہے ہیں جن کا ذکر اللہ پاک باربار قرآن میں فرما رہے ہیں۔انسان ہمیشہ ذاتی مفادات کا دفاع کرتا ہے۔ یہ بھول جاتا ہے کہ دنیا مکافات عمل ہے۔جس کے حصول کے لئے ہر ظلم زیادتی، ناانصافی اور گناہ کرتے ہیں۔وہ دنیا فانی ہے۔ہم بحیثیت مسلمان چاہتے ہیں موت ایمان پر آئے ۔ لیکن زندگی ایمان پر کیوں نہیں ؟
انسان کا اخلاقی زوال تب شروع ہوتا ہے جب وہ اپنے مخلص رشتوں سے منافقت کرتا ہے۔جو اللہ رب العزت کو ناپسند ہے۔اسکے برعکس انہی انسانوں میں کچھ لوگ شفا ہوتے ہیں ۔ بات کرتے ہیں تو تسکین ملتی ہے۔ لفظ کہتے ہیں تو مرحم لگتے ہیں۔کچھ لوگ صرف لوگ نہیں ہوتے وہ ہمارا علاج ہوتے ہیں۔الحمد للہ اللہ بارک نے مجھے ایسے دوست عطا کئے ہیں ۔اس پر اپنے رب کا شکر ادا کرتا ہوں۔زندگی میں وہ لوگ ہمیشہ خوش رہتے ہیں جو پوری نہ ہونے والی خواہشوں سے زیادہ ، ان نعمتوں پر شکر کرتے ہیں۔ جو انہیں اللہ رب العزت نے عطا کی ہیں۔کبھی کبھی انسان نہ ٹوٹتا ھے نہ بکھرتا ھے ۔ بس ہارجاتا ھے ۔ کبھی خود سے کبھی قسمت سے کبھی اپنوں سے اور کبھی بدلے ھوے انداز بہت تکلیف دیتے ہیں۔
تمام دکھ اور نقصانات قابل تلافی ہیں ان کا مداواہوسکتا ہے۔مگر آپ کی زندگی کے وہ ماہ وصال جو دوسروں کو خوش رکھنے میں گزریں اور بدلہ میں آپ کو نفرت،منافقت سمیٹنی پڑے، انکا ازالہ ناممکن ہے۔ وقت کبھی لوٹ کر نہیں آتا۔رشتے سگے ہوں یا پردیس کے رشتے ۔ ان میں اخلاص اور ایمانداری بہت کم نظر آتی ہے۔ انسان کو دولت، شہرت، منصب اور رتبے کے لالچ نے اندھا کردیا ہے۔ اخلاقی رواداری ،ایمانداری ناپید ہے۔ اللہ رب العزت انسان کو ایسے رشتوں سے مخفوظ رکھے جن کا طرز عمل آپ کو بے سکون کرے ۔ آپکی روح کو زخمی کرئے۔ زندگی بہت چھوٹی سی ہے ۔کوشش کریں کہ کسی کا مان،اعتماد،اعتبار اور یقین نہ ٹوٹنے پائے۔وقت تو گزر جاتا ہے۔لیکن دی گئی تلخیوں کے نقش باقی رہ جاتے ہیں ۔زندگی میں ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ جب انسان رشتوں کی حقیقیت سے آشنا ھو جاتا ہے۔ تب کچھ لوگ دل میں اپنی جگہ بنا لیتے ہیں اور کچھ ہمیشہ کے لئے دل سے اتر جاتے ہیں۔ اللہ بارک ہماری نیتوں میں اخلاص ،رشتوں میں ایمانداری اور آخرت کا خوف پیدا فرمائے۔ آمین
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here