فکر نہ کریں! !!

0
51
رعنا کوثر
رعنا کوثر

زندگی میں ہم مختلف لوگوں سے ملتے ہیں کچھ کی بات چیت ہمیں حوصلہ دیتی ہے کچھ کو ہم حوصلہ دیتے ہیں۔ خاص طور سے جب ہم اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرچکے ہوتے ہیں۔ فارغ ہوتے ہیں اور اس فارغ وقت میں بجائے اس کے کہ ہم خوش ہوں لوگ گھبرا جاتے ہیں۔ ان کو گھبراہٹ اس بات کی ہوتی ہے کے ہم جو ساری زندگی مصروف رہے اب ہمارے پاس اتنی فرصت کہاں سے آگئی۔ ہم جو ساری زندگی جدوجہد میں گزارتے رہے اب کیا کریں؟ ہم جو ساری زندگی بچوں کے ساتھ گزار رہے تھے وہ اب ہم اکیلے کیوں ہیں؟ اس طرح کے مایوس کن خیالات پر ایک کو ہی گھیر لیتے ہیں اور پھر مایوس کن فکروں کا آغاز ہوجاتا ہے جن کا کوئی انجام نہیں ہوتا سوائے اس کے کہ نیند کی گولیاں کھائیں پریشانی کی دوائیاں کھائیں یا پھر ہر ایک سے شکایت کریں زندگی سے سکون ختم ہو اور بے سکونی کا آغاز ،ایک دن میں یوں ہی کچھ اداس بیٹھی تھی کے میں نے اپنی ایک دوست کو فون ملا لیا میری یہ عادت ہے کے کبھی بھی اداس ہو تو اپنی کسی ایسی دوست کو فون کرلیتی ہوں جو پرانی دوست ہو جس سے آزام سے کچھ کہہ لیا جائے اور جو مثبت خیالات کی مالک ہو۔ اس نے باتوں کے درمیان بتایا کے وہ عید کے دن گھر میں اکیلی تھی اس کے دونوں بچوں کی شادیاں ہوچکی تھیں۔ بیٹا امریکہ میں تھا۔ بیٹی اپنے گھر میں بچوں کے ساتھ مصروف تھی۔ بہت سارے بہن بھائی ہیں ان کے والدین کے گھر میں عید کی بہت گہما گہمی رہتی تھی۔ اب ایسے میں انسان اکیلا عید کرے۔ بہن بھائی اتفاق سے سب ہی ملک سے باہر تھے۔ ان دنوں اس کا کہنا ہے کے وہ عید کی صبح نماز پڑھ کر خدا کا شکر ادا کرنے میں لگ گئی۔ کے آج وہ پرسکون طریقے سے ایسے گھر میں بیٹھی ہے اس کے شوہر ہمیشہ دوسرے ملک میں رہے۔ اس نے بچوں کا پورا بوجھ اٹھایا جو بوجھ کمر توڑ رہا تھا۔ اس سے فراغت ہوئی بیٹا ڈاکٹر بنا، بیٹی ڈاکٹر بنی دونوں کی شادیاں ہوگئیں۔ ایک بہت بڑی ذمہ داری سے فارغ ہوئی۔ لہذا میں نے سوچا بھی نہیں میں عید اکیلے کر رہی ہوں مجھے تو اپنی جدوجہد یاد آتی رہی جس سے میں آج فارغ تھی۔ خدا کا شکر ادا کرکے میں مطمئن سی بیٹھ گئی۔ اتنے میں میری کوئی رشتہ دار آگئیں بولیں آج سے پہلے میں نے تہمارے چہرے پہ اتنا اطمینان نہیں دیکھا۔ وہ حیران ہوئی آپ سچ کہہ رہی ہیں ہاں بالکل نہ دکھ نہ آنسو کے عید کے دن اکیلی ہو اوپر سے یہ مطمئن پہرہ، یہ کہانی سن کر میں نے اس سے کہا تم بچ کہہ رہی ہو۔ ہم شروع سے جدوجہد کا آغاز کرتے ہیں۔ پہلے پڑھائی کی فکر، پھر اچھے کیریئر کی فکر، پھر شادی کی فکر اس کے بعد بچوں کی فکر اور جب بچے ہوجائیں تو ان کو بڑا کرنے کی فکر ان کو پڑھانے لکھانے کی فکر ان کو پڑھا لکھا دیں تو پھر ان کی شادی کی فکر اور پھر جب ان کی شادی ہوجائے تو اپنی نوکری چھوڑنے کی فکر(اگر نوکری کر رہے ہوں تو) ریٹائرڈ ہوگئے تو اب یہ فکر کے وقت کیسے گزاریں صبح ہوئی تو اداس شام ہوئی تو پریشان، بچوں سے شکوہ اپنے آپ سے شکوہ اور پھر یہ فکر ذہنی پریشانی کا سبب بن کر دماغ ہی پر اثرانداز ہو جاتی ہے۔ کیا ہم سب کو اللہ نے اسی لئے پیدا کیا ہے کے صرف فکر میں ہی زندگی تمام ہوجائے۔ ایک وقت آتا ہے جب ہم سب فکر مند ہوتے ہیں یہ حقیقی فکر میں ہوتی ہیں مگر جب ہم اپنے فرائض پورے کرلیتے ہیں تو پھر اطمینان کی زندگی گزاریں۔ خوش رہیں اور دوسروں کو بھی خوش رہنے دیں،فکر ہماری عادت بن جاتی ہے ضرورت سے زیادہ کام کرنا ہمارے اندر بیٹھ جاتا ہے خاص طور سے امریرکہ کی زندگی میں اس لئے اپنے لئے سوچیں مطمئن رہنا سیکھیں اور ایک پرلطف زندگی گزاریں۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here