کرکٹ میں بھی سیاست!!!

0
8
جاوید رانا

ہم نے کچھ عرصے پہلے لکھا تھا کہ پاکستانی قوم یا تو بے حد معصوم ہے یا نہایت محب وطن کہ اسے جس طرف ہانکا جاتا ہے وہ ایک ریوڑ کی طرح اس طرف چل پڑتی ہے یہ جانے بغیر کہ زمینی حقائق کیا ہیں، جس رُخ پر اسے دھکیلا جا رہا ہے اس کے ماضی حال اور مستقبل کے نتائج کیا ہیں اور منصوبہ بندی و اسٹریٹجی کتنی حقیقت پر مبنی ہے۔ یہ معاملہ کسی ایک شعبے تک محدود نہیں بلکہ سیاست، ریاست سے معیشت، کھیل تک دراز ہے۔ ٹی 20 ورلڈکپ کے حوالے سے نہ صرف پاکستان بلکہ اوور سیز بھی پاکستانی قوم کا جذبہ آسمان کو چُھورہا تھا، تم جیتو یا ہارو سنو، ہمیں تم سے پیار ہے کی تکرار کے حامل کرکٹ کی شیدائیوں کو یقین واثق تھا کہ بابر، رضوان، شاہین، فخر جیسے کھلاڑیوں پر مضبوط ٹیم کے سُپر 8 مرحلے میں پہنچنا صرف بھارت کو شکست دینے کا ہدف ہے، امریکہ، کینیڈا، آئرلینڈ تو بچہ ٹیمیں ہیں اور ہم اپنے گروپ کی ٹاپ ٹیم بن کر ورلڈکپ کے فاتح بن کر سامنے آئینگے۔ پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں پھیلے ہوئے پاکستانی بلکہ امت مسلمہ میں بھی پاکستان کرکٹ ٹیم کیلئے عوام کا جوش و جذبہ عروج پر تھا۔ پی سی بی کے چیئرمین و پاکستانی وزیر داخلہ نے جہاں ورلڈکپ جیتنے پر ایک ایک لاکھ ڈالرز کا اعلان کیا تھا وہیں سعودی سفیر برائے پاکستان نے ٹیم اور آفیشلز کیلئے شاہی سطح پر حج / عمرہ کی نوید سنائی تھی لیکن ”اے بسا آرزو کہ خاک شدہ” پہلا میچ امریکی الیون سے ہوا جو کوالیفایئرز میں بھی کامیاب نہ ہو سکی تھی، محض میزبان ٹیم ہوتے ہوئے ٹورنامنٹ کا حصہ تھی لیکن ہوا کیا، دنیا بھر کے شائقین نے دیکھا کہ اس نوزائیدہ ٹیم نے پیپرز پر اعلیٰ ترین اوسط و ریکارڈز پر مشتمل کھلاڑیوں کی ٹیم کو بائولنگ، بیٹنگ و فیلڈنگ سمیت ہر شعبہ میں اس طرح تہس نہس کیاکہ الامان الاحفیظ، تفصیل سے تو ہر وہ شخص واقف ہے جس نے خود کو باخبر رکھا۔ 168 رنز کے دفاع میں آخری اوور میں 15 رنز دیئے جانے کے بعد سپر اوور میں وائڈز کے 7 رنز اور 19 رنز کے ٹارگٹ کے برعکس محض 13 رنز بڑے دعوئوں اور خود ستائی کے منہ پر تماچہ تھا، یہی نہیں دھواں دھار شاٹس کی شہرت رکھنے والا فخر سیکنڈ اینڈ پر ہی رہا، چاچو کے آئوٹ ہونے پر خود کپتان کا نہ آنا اور شاداب کو بھیجنا نہ صرف حیرت انگیز تھا بلکہ اسٹریٹجک ناکامی کا ثبوت بنا، مزید حیرت اس بات پر ہے کہ ٹورنامنٹ 15 روز قبل ہائر کیا جانیوالا کوچ سُپر اوور کی بیٹنگ کے انتخاب کے بارے میں آخری لمحے تک بے خبر ہی رہا۔ یوں یو ایس اے نے اس میچ میں شاہینوں کوملیا میٹ ہی نہیں کر دیا بلکہ دنیا کو ان کی حقیقت بتا دی۔ پاکستانی کپتان کے وضاحتی و معروضی بیان اور ٹاپ 8 میں پہنچنے کے دعوئوں کے ٹورنامنٹ کے سب سے بڑے ٹاکرے پاک بھارت ٹاکرے میں 9 جون کو ازلی حریف بھارت کیخلاف بائولرز کی شاندار کارکردگی کے سبب بھارتی ٹیم کے ٹی 20 میں 119 رنز کے کم ترین اسکور کے جواب میں محض 113 رنز پر پاکستانی ٹیم کاڈھیر ہو جانا اور اختتام پر نسیم شاہ کا زار و قطار رونا بہت سے حقائق سے پردہ چاک کر چکا ہے، بہت سوال سامنے لایا ہے۔ سب سے بڑی حقیقت جو سامنے آئی وہ یہ کہ ٹیم ایک یونٹ نہیں، تقسیم کا شکار ہو چکی ہے۔ دوسرے یہ کہ ٹیم سلیکشن میرٹ کے برعکس دوستی، تعلقات اور جسے پیا چاہے وہی سہاگن کے فارمولے پر کیا جا رہا ہے۔ ٹورنگ سلیکشن میں ہیڈ کوچ کے رائے اور مشاورت کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ سب سے بڑھ کر ٹارگٹ کے ہدف میں کپتان سے لے کر شاہین تک ناقص بیٹنگ، ڈاٹ بالز کا تسلسل اور مخالف بائولرز و ٹیم کی حکمت عملی کو نظر انداز کیا جانا واضح ہے۔ بھارت کیخلاف حالیہ میچ میں بابر کا ڈبل مائنڈڈ ہونا، رضوان کا صورتحال سمجھنے کے برعکس شاٹ کھیلنا عماد وسیم کا ڈاٹ بالز کھیل کر ٹارگٹ کو طویل بنانا بھارت کی جیت تو اپنی جگہ، ٹورنامنٹ سے قبل کی صورتحال پر بھی ڈال لیجئے۔ افغانستان سے 5 میچوں میں 4 برابر ہو کر 5 واں افغانستان جیت گیا۔ ٹورنامنٹ سے پہلے وارم اپ میچز کھیلنے کی جگہ آئرلینڈ و انگلینڈ سے سیریز رکھنے کا کیا جواز تھا۔ آئرلینڈ سے مشکل سے جیت پائے انگلینڈ سے دو میچ بارش کی نذر ہوئے دو بدترین شکست کا سبب ہو گئے۔
یہاں درج بالا حالات و حقائق بہت سے سوالات اور پی سی بی سلیکشن کمیٹی و میرٹ اور کھلاڑیوں کی ذاتی پرخاش، گروہی تعلقات عیش و کمائی کے ذریعوں میں زیادہ دلچسپی اور کرکٹ کو محض ڈنگ ٹپائو کے حوالے سے اُٹھتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا پی سی بی کی قیادت ایک ایسے شخص کو دینے کا کوئی جواز تھا جومقتدرہ کا منظور نظر ہوتے ہوئے وزیر داخلہ تو ہے مگر کرکٹ سے اس کا دور دور کوئی واسطہ نہیں، سلیکشن کمیٹی کا سربراہ اس فرد کو بنایا گیا ہے جو محسن نقوی کی نگراں پنجاب کے زمانے میں وزیر کھیل بنایا گیا وہاب ریاض نے کرکٹ تو بہت کھیلی ہے لیکن چیف سلیکٹر کا وہ معیار نہیں رکھتا جو میرٹ پر سلیکشن کر سکے۔ صاحبزادہ فرحان، سلمان علی آغا، زمان خان کا میرٹ کے باوجود سلیکٹ نہ ہونا اور بابر اعظم کی چوائس پر اعظم خاں جیسے کو ٹیم کا حصہ بنانا۔ سوال یہ بھی ہے کہ ٹیم کا انتخاب صرف اپنی ہی کپتانی کے زعم اور ریکارڈز کی بناء پر ہونا ہے، یہ کھیل فرد کا گیم نہیں ٹیم گیم ہے اور کھلاڑیوں کے اتحاد و یکجہتی کا مظہر ہوتا ہے۔ اب یہ بات کُھل کر سامنے آچکی ہے کہ بابر اور شاہین کے درمیان گروپنگ کی تقسیم ہو چکی ہے، بعض مبصرین تو یہاں تک ہیں کہ ٹیم پنجابی و پشتون میں تقسیم ہو چکی ہے۔ اگر ایسا ہے تو یہ پاکستان کی نہایت بدنصیبی اور عوام کی تضحیک ہے کہ کھیل میں بھی سیاست اور عصبیت آگئی ہے، وطن عزیز میں سیاست کی وجہ سے جو عدم استحکام آیا ہے ایسی ہی صورتحال کرکٹ میں آنے کا مطلب عوام کے قلب و روح کو ایذا پہنچانے کے مترادف ہوگا اور ہاکی کی طرح کرکٹ کا کھیل بھی معدوم ہو جائیگا۔ چیئرمین پی سی بی نے سرجری و تحقیقات کا عندیہ دیا ہے لیکن کیا زخم لگانے والا سرجری سے شفاء کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ تحقیقات تو اس کی بھی ہونی چاہییں کہ 15 کھلاڑیوں کیساتھ 17 آفیشلز اور لواحقین پر آنے والے اخراجات کس مد میں آئے اور حکومت و پی سی بی پر عوام کے کے پیسے کا کتنا بوجھ پڑے گا۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here