رعنا کوثر
ہماری روایات میں جہاں اور بہت ساری چیزیں شامل ہیں وہیں لڑکیوں کی تعلیم وتربیت پر بھی بہت زور دیا جاتا ہے۔انہیں نہ صرف تعلیم دلائی جاتی ہے بلکہ ان کی گھریلو تربیت بھی بہترین کی جاتی ہے کھانا پکانا کپڑے سمیٹ کر اپنی جگہ رکھنا ،گھر کی صفائی کرنا ،لانڈری کرنا، کیا کچھ نہیں سکھایا جاتا، اٹھنابیٹھنا بڑوں کا ادب کرنا،ایمانداری تمیز، تہذیب، ایک اچھی لڑکی سب کچھ سیکھ کر اپنے گھر سے رخصت ہو کر شادی شدہ زندگی اچھے طریقے سے گزرارنے کے قابل ہوتی ہے ۔اس کی اچھائی گھر اس کے شوہر کے دل کو سکون دیتی ہے اور گھر کا ماحول سازگار رکھنے میں مدد دیتی ہے اور اس کی تعلیم سونے پہ سہاگہ کا کام کرتی ہے بلکہ کسی پڑھی لکھی عورت کی تعریف یوں کی جاتی ہے کے وہ جاب بھی کرتی ہے گھر بھی خوب صاف ستھرا رکھتی ہے کھانے بھی خوب پکاتی ہے اور خوش اخلاق بھی ہے۔
یہ تو ہوئی لڑکی کی تربیت: آج کل صرف لڑکی کی نہیں لڑکے کی تربیت بھی اس کی تعلیم کے ساتھ انتہائی ضروری ہوگئی ہے تاکہ ان کی شادی شدہ زندگی اچھی گزرے اور وہ بیوی کے دل کو سکون اور خوشی دے سکے۔لڑکا تعلیم تو یافتہ تو ہوتا ہی ہے اچھی نوکری بھی کرتا ہے مگر اس کی گھریلو تربیت پر بھی زور دینے کی ضرورت ہے۔لڑکے سکول، کالج سے جب گھر آتے ہیں تو ماﺅں کے ہاتھ کے کھانے ان کے منتظر ہوتے ہیں۔امریکہ میں بھی ہم اپنی روایات کے مطابق لڑکوں کو باورچی خانے میں آنے سے منع کردیتے ہیںیوں یہ لڑکے شادی کے بعد بیویوں سے بھی یہی چاہتے ہیں کے وہ کھانا پکا کر ان کے سامنے لا کر رکھیں۔اکثر لڑکوں کو گھر کی صفائی ستھرائی سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی ،وہ اپنے کمرے کو بس ٹھیک ٹھاک کر لیتے ہیں۔والدین انہیں پورے گھر کو اپنا گھر سمجھنے کی تربیت دیں تو وہ لان صاف کرنے سے لے کر باورچی خانہ تک صاف کرسکتے ہیں۔یوں شادی کے بعد وہ گھبرا جاتے ہیں کے ایک پورے گھر کی ذمہ داری ان کے اوپر آگئی کہاں وہ اپنے کمرے میں اپنی زندگی گزارتے تھے فون ٹی وی سے فرصت نہیں کہاں یہ گھریلو ذمہ داریاں زیادہ سے زیادہ گھر میں کام کیا تو اپنے کپڑوں کی دھلائی کر لی۔اب شادی کے بعد بچوں اور بیوی کے کپڑوں کی دھلائی انہیں طے کرکے الماریوں میں رکھنا یہ سب انہیں اچھا نہیں لگتا۔گھر میں کوئی چیز ٹوٹ پھوٹ جائے تو بھی وہ آسان راستہ ڈھونڈتے ہیں کسی کام کرنے والے کو بلا لیا جو بہت پیسے لیتے ہیں آج کل کے دور میں ایک لڑکے کو بھی اگر یہ کام آئے تو انہی کے اپنے لیے بہتر ہے۔
٭٭٭