کراچی پیکج ٹائیں ٹائیں فش نہ ہوجائے!!!

0
287
حیدر علی
حیدر علی

 

حیدر علی

ایک زمانہ تھا جب 7 لاکھ روپے کی رقم کو قارون کا خزانہ سمجھا جاتا تھا، جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ اِسے آپ دیکھ سکتے ہیں لیکن گِن نہیں سکتے مطلب یہ کہ اُس زمانے میں نوٹوں کو گننے کیلئے کوئی مشین نہ ہوا کرتی تھی، اِسے آپ حاصل کر سکتے ہیں ، لیکن خرچ نہیں کر سکتے اِس فلمی مکالمے کا مطلب یہ ہے کہ اُس زمانے میں چیزیں بہت سستی ہوا کرتیں تھیں چند ہزار روپے خرچ کریں تو اتنی چیزیں خریدی جا سکتیں تھیں کہ گھر میں رکھنے کی کوئی گنجائش نہ ہوتی تھی مکالمے کا تیسرا باب یہ تھا کہ اِسے آپ رکھ سکتے ہیں، لیکن دے نہیں سکتے ظاہر ہے کوئی اتنی بڑی رقم کسی اور کو کیوں دے ۔ لوٹری کوئی بار بار تو نہیں نکلتی اور پھر جب لوٹری نکلتی ہے تو قرض بھی واپس کرنے پڑتے ہیںلیکن وزیراعظم عمران خان کا کراچی کیلئے 1100 ارب روپے یعنی 6 بلین 509 ڈالر کا پیکج یقینا لوگوں کی بھنویں کو چڑھان دیتا ہے تاہم اگر ہوشیار لوگ اِس رقم کو متفرق پروجیکٹ کی تعداد سے تقسیم کردیں تو نتائج میں وہی کشکول خالی نظر آتا ہے، پروجیکٹ کوئی ایک دو نہیں بلکہ نصف درجن کے قریب ہیں جن میں اہم ترین پروجیکٹ سیوریج سسٹم ، پانی کی دستیابی ، سرکلر ریلوے، سالڈ ویسٹ اور ٹرانسپورٹیشن کے مسائل شامل ہیں۔1100 ارب روپے کے حصہ بخرہ کیلئے وفاقی حکومت کے نمائندے، فوج اور حکومت سندھ کے اسٹیک ہولڈرز پیش پیش ہونگے، ہر ایک کی ضرورت اہم ہوگی، کوئی رینج روور خریدنے کا خواہشمند ہوگا، کوئی اپنے چشم و چراغ کو امریکا اعلی تعلیم کےلئے بھیجنے کی سوچ رہا ہوگا۔ اِس تناظر میں ساڑھے 6 بلین ڈالر کی رقم دیکھنے میں تو ناکافی ہی معلوم ہوتی ہے اور اندیشہ ہے کہ آدھا تیتر آدھا بٹیر کے مصداق پر منتج نہ ہوجائے۔ کراچی میں سیوریج سسٹم کے جامع منصوبے کی تکمیلی ہی کیلئے کم ازکم 10 بلین ڈالر کی ضرورت در پیش ہے، ماضی میں جس طرح سیوریج سسٹم کو نظر انداز کرکے ہا¶سنگ کمپلکس، قطار در قطار فلیٹس تعمیر کئے گئے ہیں جسکی وجہ کر وہاں سیوریج سسٹم نہ ہونے یا انتہائی خستہ حال صورت میں موجود ہیں جنکا از سر نوع تعمیر ہونا ضروری ہے۔کراچی کے سابق میئر مصطفی کمال نے بھی سیوریج کی تعمیر کیلئے سارے کراچی کو کھود کر رکھ دیا تھا لیکن جب بارش ہوئی تو اُن کی ساری تدبیریں ٹائیں ٹائیں فش ہوکر رہ گئیں۔ ضرورت اِس بات کی بھی ہے کہ مصطفی کمال کی ساری پلاننگ کا از سر نوع جائزہ لیا جائے اور اِس بات کی تحقیقات کی جائے کہ اُنہوں نے سیوریج کے فنڈز سے کتنی رقم دبئی، لندن اور امریکا کے بینکوں میں منی لانڈرنگ کرائیں تھیں۔
بارش اور پانی اِن دنوں اہلیان کراچی کا موضوع بحث بنا ہوا ہے اگر اِسی پانی کو محفوظ کرلیا جائے تو پھر کراچی میں عشرے عشرے تک پانی کی کوئی کمی وبال جان نہ بن سکے گی، صرف چند دِن کی بارش نے حب ڈیم کے سطح پانی کو اِس حد تک بلند کردیا ہے کہ ماہرین کی رائے میں پانی کے اِس ذخیرے کو آئندہ تین سال تک استعمال کیا جاسکے گا، سندھ کے عوام یہ جانتے ہیں کہ اُن کی سرزمین پر برسنے والا سارا پانی بہتا ہوا سمندر میں جا گرتا ہے۔ اِس لئے لازمی ہے کہ لانڈھی اور کورنگی کے درمیان بارش کے پانی کے ذخیرہ اندوزی کیلئے فوری طور پر ایک ڈیم تعمیر کیا جائے۔ صرف ڈیم کے تعمیر ہی سے کراچی میں پانی کی کمی کا سدباب ہوسکتا ہے، ڈیم کے تعمیر کی لاگت کوئی بہت زیادہ نہیں صرف ایک بلین ڈالر کے قریب آئیگی۔
معلوم ہوا ہے کہ فراڈیہ کنٹریکٹرز کا گروپ حکومت کی جانب سے کراچی پیکج کے اعلان کے بعد ہی کراچی پہنچ کر اپنا دفتر قائم کر لیا ہے اُس گروپ کا دعوی ہے کہ اُس نے نیویارک میں بھی سیوریج سسٹم کی تعمیر میں حصہ لیا تھا جبکہ حقیقت میں اُس گروپ کے چند افراد نیویارک میں مرغی کاٹ کر فروخت کرنے کے کاروبار سے ملوث تھے۔ کراچی کے شاعروں کی تنظیموں نے وزیراعظم عمران خان کے کراچی پیکج پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے، اُنکا کہنا ہے وزیراعظم کو کراچی کے شاعروں کے فلاح وبہبود کیلئے بھی رقم مختص کرنی چاہیے تھی۔اُنہوں نے مزید کہا کہ بارش کے پانی میں اُنکا دیوان بھی بہہ گیا ہے اور اگر وہ دوسرے برساتی شاعروں کے ہاتھوں لگ گیا تو وہ اُسے اپنے مجموعہ کلام ہونے کا دعویٰ کر دینگے۔ لہٰذا حکومت یہ قانون مرتب کرے کہ نئے شاعر جنہوں نے اپنا کلام پہلے کسی مشاعرے میں نہیں سنایا ہے ، وہ ثابت کریں کہ مذکورہ غزل یا نظم کے وہ واقعی وارث ہیں۔ اِس مقصد کے حصول کیلئے حکومت ایک ادبی کمیٹی قائم کرے جو اِس طرح کے تنازع کا فیصلہ دے عدم موجودگی کی صورت میں ہر نیا شاعر سرقہ غزل گو کہلائیگا۔کراچی کے قصابوں نے بھی وزیراعظم عمران خان سے اپیل کی ہے کہ بارش کے پانی میں اُن کے جو جانور بہہ گئے ہیں حکومت اُس کا معاوضہ ادا کرے۔ اُنہوں نے کہا کہ بہت سارے جانوروں کو لوگوں نے بہتے پانی سے نکال کر ذبح کردیا تھا، لیکن یہ اُن کا دینی اور اخلاقی فرض تھا کہ وہ اُن ذبح شدہ جانوروں کو قصاب کے حوالے کر دیتے۔معلوم ہوا ہے کہ پاکستان کے صدر ڈاکٹر عارف علوی کے گھر ڈیفنس میں واقع میں بھی پانی گھس گیا تھا لیکن اُنہوں فوری طور پر اپنے گھر کے اطراف ترپال کی چادر چڑھاکر اُسے مکمل طور پر ڈھک دیا تھا۔ اُنکے پڑوسی نے ازراہ مذاقا”کہا کہ پہلے یہ پریزیڈنٹ ہاو¿س تھا ، لیکن اب یہ ڈھکن ہاو¿س بن گیا ہے صدر مملکت ڈاکٹر علوی اپنے گھر کو دیکھنے کیلئے کشتی پر سوار ہوکر آئے تھے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here