کپتان بمقابلہ گھاگ شیطان!!!

0
173
جاوید رانا

جاوید رانا، بیوروچیفشکاگو

پاکستان کا نظام سیاست و ریاست اس حد تک پہنچ گیا ہے جہاں سے واپسی کی یا بہتری کی کوئی صورت نظر آنا مشکل لگتا ہے۔ یہ تماشہ تو برسوں سے ہو رہا ہے کہ انتخابات میں جو جماعت ہار رہی ہوتی ہے یا اپنی شکست کے آثار دیکھتی ہے وہ دھاندلی، اسٹیبلشمنٹ یا الیکشن اتھارٹی پر الزام تراشی کر کے مخالف کی کامیابی کو دھندلانے کی کوشش کرتی ہے۔ کامیاب اور ناکام سیاسی اشرافیہ کے درمیان جو تم پیزار کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور اس تمام صورتحال کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مملکت اور عوام کے مفادات کے معامالات پس پُشت ڈال دیئے جاتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس چپقلش میں ملک کے انتظامی، سیکیورٹی و عدالتی ادارے بھی لپیٹ میں آتے ہیں اور ملکی و عوامی مفادات کے معاملات بھی متاثر ہوتے ہیں۔ داخلی، خارجی، معاشی و معاشرتی طور پر پاکستان کا امیج منفی تصویر کا نقشہ پیش کرتا ہے۔ اس امر سے قطع نظر کہ وطن عزیز میں تقریباً تین دہائیوں تک فوج نے اقتدار پر تصرف کیا، گزشتہ دو دہائیوں میں جمہوریت کے نام پر دو پارٹیوں کے درمیان اقتدار کا کھیل جاری رہا لیکن اس کھیل میں بھی جمہوریت کے ان نام نہاد دعویداروں نے شکست کی صورت میں دھاندلی، ریاستی اداروں پر الزام تراشی کا منترا جاری رکھا جبکہ جیتنے والوں نے کرپشن، لُوٹ مار اور مفاد پرستی کا بازار گرم رکھا۔
2018ءکے انتخابات میں عوام نے ان آزمودہ سیاسی راہزنوں سے چھٹکارا پانے کیلئے عمران خان کی ایماندارانہ شخصیت اور واضح ایجنڈے کے پیش نظر تحریک انصاف کے حق میں اپنے ووٹ کا استعمال کیا اور تحریک انصاف نے قومی اسمبلی، کے پی، پنجاب و بلوچستان میں حکومت بنائی۔ شکست خوردہ جماعتوں نے سلیکٹڈ کا نعرہ لگا کر ایک بار پھر فوج اور ایجنسیوں کو ملوث کرنے کی رٹ لگائی اور شروع دن سے ہی عمران خان کی حکومت کی بیخ کنی میں مصروف رہے۔ دوسری جانب کپتان کا رویہ بھی یہ رہا کہ وہ مخالفین کو نیچا دکھانے کی مہم میں ہی مصروف رہے۔ ملک میں نظام اور عوام کی بہتری و اصلاحات کا ایجنڈا تشنہ¿ تکمیل رہا جس کا نتیجہ مہنگائی، بیروزگاری، لا اینڈ آرڈر کے مسائل کی صورت میں عوامی بددلی اور مایوسی کا باعث ہوا۔ دوسری جانب ہارے ہوئے سیاسی جواری اپنے عزائم کی تکمیل اور تبدیلی حکومت کو گرانے کے مذموم مقاصد میں سرگرم عمل رہے۔ ہم اپنے گزشتہ کالموں میں اس حوالے سے کپتان وزیراعظم کے گوش گذار کر چکے ہیں کہ وہ ان سیاسی گندے انڈوں کے پروپیگنڈے کے توڑ کیلئے نظام کی بہتری اور عوامی پریشانیوں کے تدارک پر زیادہ توجہ دیں لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کپتان اور ان کے کھلاڑیوں کا واحد ایجنڈا صرف مخالف فرقوں کو گندا کرنا ہی ہے، عوامی معاملات پر عدم توجہ کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ کپتان کے متعدد عوامی فلاحی پروجیکٹس کے باوجود عوام بنیادی اشیائے ضرورت، بجلی، گیس، بیروزگاری کے باعث مایوس نظر آتے ہیں۔
ہمارے اس نکتہ¿ نظر کا حوالہ ملک کے چاروں صوبوں میں حالیہ ضمنی انتخابات کے نتائج ہیں۔ یہ حوالہ ممکن ہے کہ قابل قبول نہ ہو کہ سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت ہے اور ضمنی انتخاب میں عموماً بر سر اقتدار حکومت ہی کامیاب ہوتی ہے۔ لیکن اسی سندھ میں کراچی سے تحریک انصاف کے 14 اراکین قومی اسمبلی 2018ءمیں کامیاب ہوئے تھے جبکہ صوبائی اسمبلی میں تحریک انصاف دوسری بڑی پارٹی ہے۔ پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت ہے لیکن ن لیگ کی غنڈہ گردی اور گیارہ پارٹیوں کے جُٹھ کےخلاف پی ٹی آئی کی مشکلات ختم ہونے کو نہیں آرہی ہیں۔ بلوچستان میں بھی صورتحال مختلف نہیں اور حکمراں جماعت کےخلاف پی ڈی ایم کے امیدوار کی کامیابی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ پختونخواہ میں تو نوشہرہ کی نشست پر ن لیگ کی کامیابی دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف، اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی، کی تفسیر بنی کہ پرویز خٹک کا بھائی لیاقت خٹک ہی اس کا سبب بنا ہے۔ پنجاب میں وزیر آباد میں شکست کے باوجود پی ٹی آئی کیلئے یہ پہلو مثبت ہے کہ کھلاڑیوں کا ن لیگ کے گڑھ میں ووٹ بینک بڑھا ہے۔ جہاں تک این اے 75 ڈسکہ کا معاملہ ہے وہاں جو کچھ ہوا ہے وہ شاید ملک کی انتخابی تاریخ کا عجیب و غریب معاملہ ہی ہے۔ صبح سویرے سے ایک دوسرے کےخلاف جھگڑوں، فائرنگ معصوم ورکروں کی ہلاکتوں اور دونوں جانب کے لیڈروں کی لاشوں پر سیاست کی منافرت اور گھناﺅنا سلوک تو اپنی جگہ 20 یا 23 پریزائنڈنگ افسران کا بیلٹ باکسز سمیت 13 گھنٹے تک غائب رہنا پاکستانی تاریخ کا پہلا عجیب مخمصہ ہے۔ خیر اس معاملے پر چیف الیکشن کمشنر نے فوری اقدام کرتے ہوئے قضیہ کو تحقیقات کے ذریعے فیصل کرنے کا اعلان کر دیا ہے تاہم انہوں نے حکومت پنجاب کی انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر سوال اُٹھا دیا ہے۔
واضح رہے کہ ان ضمنی انتخابات میں جو عوامل سامنے آرہے ہیں وہ مارچ میں ہونے والے سینیٹ کے انتخابات پر اثر انداز ہونے کا پیش خیمہ ہو سکتے ہیں۔ سینیٹ انتخابات میں ایک جانب شفاف انتخابات کا خواہاں خان ہے تو دوسری جانب زرداری، نوازشریف، فضل الرحمن، اختر مینگل، محمود اچکزئی جیسے گھاگ ہیں جو کامیابی کیلئے ہر جائز ناجائز عمل کو روا رکھتے ہیں۔ ہماری اطلاعات کے مطابق سینیٹ میں کامیابی خصوصاً یوسف رضا گیلانی کی جیت کیلئے ووٹوں کی خریداری کیلئے بیرونی ممالک سے نوٹوں کی برسات شروع ہو چکی ہے، پاﺅنڈز، ریال اور ڈالرز بہت بڑی تعداد میں آچکے ہیں اور اراکین اسمبلی کی قیمت لگانے کا کام شد ومد سے جاری ہے۔ ادھر عمران خان مسلسل اس جدوجہد میں ہے کہ اپنے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کو بھرپور اعتمادمیں لے کر ووٹ فروشی کے اس گرداب سے بچائے اور اپنی کامیابی کو یقینی بنائے۔ سینیٹ کے انتخاب میں اس وقت سب سے اہم مقابلہ گیلانی اور حفیظ شیخ کا ہے جس کیلئے ایک جانب ایک سابق صدر اور چار وزرائے اعظم اکٹھے ہیں تو دوسری طرف اکیلا خان اس کوشش میں ہے کہ ضمیر کی خریداری کا کاروبار ممکن نہ ہو۔ پختونخواہ کے دورے میں کپتان نے اپنے منتخب نمائندوں، وزیراعلیٰ، گورنر و دیگر تنظیمی ساتھیوں پر شفافیت سے ووٹ کے استعمال پر زور دیا لیکن حیرت کی بات ہے کہ پی ٹی آئی کے 14 اراکین قومی اسمبلی اس ملاقات میں شریک نہ تھے۔ کیا یہ نوٹوں کی چمک کی وجہ تو نہیں تھی؟ پھر پرویز خٹک کا نوشہرہ کے حوالے سے الیکشن کمیشن جانے کا اعلان اور یہ کہنا کہ میرے بغیر کوئی اس علاقے سے جیت نہیں سکتا بے معنی نہیں۔
حالات جو رُخ اختیار کر رہے ہیں وہ کسی بھی صورت ملکی مفاد میں نہیں ہیں۔ نوٹوں کے کھیل سے زرداری کی یہ بات صحیح نہ ہو جائے کہ گیلانی جیتنے کے بعد چیئرمین سینیٹ بنے گا اور عمران کو گھر جانا پڑے گا۔ گھاگ سیاستدانوں کے مقابل، کھرے عمران کو کہیں اپنے ہی گھر کے چراغوں سے تو جلنا نہیں پڑے گا کہ نوٹوں کی برسات نیک سے نیک اور پارسا کو بھی لڑ کھڑا دیتی ہے خدا خیر کرے اور پاکستان کے حق میں بہتری ہو۔ اس وقت تو حالت یہ ہے کہ کپتان کے کھلاڑیوں میں سیاسی چالاکی و Electables کی کمی نظر آتی ہے اور گیارہ کا ٹولہ ہر مکروہ کھیل کھیلنے پر آمادہ ہے۔ سینیٹ کے انتخاب میں شیطانی ذہن کے سیاستدانوں سے کپتان کا مقابلہ ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ فتح خیر کی ہوتی ہے یا شر کی۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here