رعنا کوثر
آج ایک بہترین سواری رکشہ کا ذکر کروں گی۔ہم جب سے امریکہ آئے ہیں۔ٹرین کا سفر بہت بڑی سی بس کا سفر اور کار کا سفر کر رہے ہیں۔مگر آج رکشہ اور اس کی سواری یاد آئی۔پاکستان کے شہر کراچی میں یہ سواری عام ہے مگر امراءکا طبقہ اسے چھوٹے درجے کی سواری سمجھتا ہے اور اس میں سفر کرنا مناسب نہیں سمجھتا۔وجہ یہ بتائی جاتی ہے کے رکشہ شور بہت کرتا ہے پھر آرام دہ نہیں ہوتا، سڑک پر ہر گڑھے کے ساتھ ہر اونچ نیچ کے ساتھ رکشہ بھی اچکتا رہتا ہے جس سے کمر کے درد کا خدشہ ہوتا ہے پھر یہ کھلا ہوا ہوتا ہے کوئی پردہ نہیں اور بہت سستا ہوتا ہے اس لیے اس میں بیٹھنے والے کا کوئی رعب نہیں پڑتا ،کسی کے گھر رکشہ میں بیٹھ کر چلے جاﺅ تو وہ حیران ہوتا ہے۔ٹیکسی میں کیوں نہیں آئے سوال کیا جاتا ہے ،اب تو وہاں بھی اوبر شروع ہوگئی ہے ،شاید رکشوں کا مستقبل اتنا تابناک نہ ہو۔مگر ہم کو ہمیشہ رکشہ پسند رہا۔اس کے بہت سارے فائدے ہیں۔ایک تو صرف چند فاصلے پر ہی کیوں نہ جانا ہو۔اگر آپ پیدل چل رہے ہیں اور رکشہ نظر آگیا تو ہاتھ دے کر رکوا لیا۔رکشے والے بھائی اس میں سے دیکھ کر فوراً رکشہ روک لیتے ہیں۔آپ کو کسی پریشانی کے بغیر سواری مل گئی۔آپ کو کسی گاڑی کی ضرورت نہیں ،رکشہ کھلا ہوتا ہے۔اس لیے اکیلی خاتون اس میں اپنے آپ کو زیادہ محفوظ سمجھتی ہے۔اگر رکشے والے سے اچھی طرح بات کرلی جائے تو وہ خیال رکھتا ہے کہ آپ کو بہت جھٹکوں سے محفوظ رکھے۔ہاں اگر آپ کو یہ فکر ہے کے کسی کے گھر رکشہ میں بیٹھ کر جائیں گے تو آپ کی عزت میں فرق آجائےگاتو پھر یہ آپ کی مجبوری ہے۔ورنہ رکشے میں بیٹھ کر بے حد مزا آتا تھا۔ٹھنڈی ہوا کے جھونکے اور ہر چھوٹی سی گلی میں گھسنے کا کمال رکشے والے کو ہی آتا ہے۔اکثر لوگ کراچی کے حالات کی وجہ سے رکشہ چلانے والے سے ڈرتے تھے۔اغواءنہ کرلیں،چوری نہ کرا لیں کیونکہ وہ گھر کے عین سامنے رکشہ روکتے تھے مگر رکشہ ڈرائیور بھی حلال کی روزی کماتے ہیں اور تمام لوگوں کی طرح دن بھر دھوپ ،سردی اور گرمی میں رکشہ چلانا پھر اونچی نیچی سڑکوں پر دھکے کھانا۔وہ غریب سب سے زیادہ شکار ہوتے ہیں کمر کے درد کا، میں نے بہت بوڑھے اور ضعیف لوگوں اور بہت کم عمر لڑکوں کو بھی رکشہ چلاتے دیکھا ہے یہی ان کی روزی روٹی ہے۔جرائم پیشہ تو ہر جگہ ہر شعبہ میں ہوتے ہیں۔آج کل تو بہت اچھے گھرانوں کے لوگ رکشہ چلا رہے ہیں،یہ ان کی الگ سے آمدنی کا ذریعہ ہے۔
اب آپ پوچھیں گے کہ میں نیویارک میں بیٹھ کر رکشے کو کیوں یاد کر رہی ہوںتو اس کی وجہ یہ ہے کے ہم یہاں صرف گاڑیوں کے عادی ہوتے ہیں۔خود ہی چلائیں ان کو پارک کریں۔ان میں چھوٹے سے چھوٹا سفر کریں۔یا لمبا سفر کریں۔آپ سوچیں اگر یہاں رکشہ ہو تو کتنی آسانی ہو نہ کار سروس کا انتظار نہ گاڑی چلانے کی فکر ٹرین اور بس بہت سہولت کی سواریاں ہیںمگر دو تین بلاک چل کر جاﺅ پھر انتظار کرو اگر بس کا ٹائم نکل گیا تو کھڑے رہو۔کہیں کوئی پرسان حال نہیں جب تک بس یا ٹرین نہیں آجاتی ہم یہاں بہت سراہتے ہیںان چیزوں کو مگر ذرا سوچیں رکشہ کتنی پیاری سواری تھی۔ہر جگہ رکشے والے سامنے آکر کھڑے ہوجاتے۔اب آپ ان کو اہمیت دیں یا نہ دیں میرے نزدیک وہ بہت اہم سواری تھی اور اب بھی میں جب پاکستان جاتی ہوں رکشے میں سفر ضرور کرتی ہوں۔ہم نے کبھی اس سواری کو قابل اہم نہیں سمجھا۔حالانکہ ہمارے سمیت بہت سارے لوگ ہوں گے جس کے کالج یونیورسٹی کے سفر میں رکشے کی خاصی اہمیت ہوگی اگر پاکستان جائیں تو رکشے کا سفر ضرور کریں اور اس کا مزا لیں۔
٭٭٭٭