عورت اور شکوہ!!!

0
130
رعنا کوثر
رعنا کوثر

رعنا کوثر

آج کل کی زندگی اور گزرے ہوئے کل کی زندگی میں انسان کے اخلاق اور اس کے رہن سہن کے انداز میں بے حد فرق آیا ہے۔اسی طرح خواتین کی زندگی میں بھی گزرے ہوئے کل اور آج بھی بے حد فرق نظر آتا ہے پہلے چاہے کسی بھی ملک کی عورت ہو وہ اپنے گھر میں رہنا پسند کرتی تھی اور شوہر کی تنخواہ پر گزارہ کرتی تھی آدمی کماتا تھا عورت کے لیے اچھے سے اچھا کھانا پینا رہن سہن کا انتظام کرتا تھا اور یہ اس کے فرائض میں سمجھا جاتا تھا۔آج عورت گھر کی صفائی کرتی تھی کھانا پکاتی تھی اور بچوں کی دیکھ بھال کرتی تھی۔
آج کے دور میں عورت بچے بھی سنبھالتی ہے کھانا بھی پکاتی ہے اور باہر جا کر نوکری بھی کرتی ہے بلکہ یہ ایسا زمانہ ہے کے ہر عورت کی خواہش ہے کہ وہ کام باہر جاکر نوکری بھی کرے۔اس کی وجوہات اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا بھی ہے لڑکیاں بھی تعلیم میں ہر ممکن آگے ہیں۔اسی لیے جو پڑھا ہے اسے استعمال کرنا بھی ضروری ہے۔اس کے علاوہ بھی گھر کے اخراجات اچھے رہن سہن کی خواہش نے ہر عورت کو ہی پیسے کمانے کا شوق دلا دیا ہے۔کچھ خواتین نوکری نہیں بھی کرنا چاہتی ہیں مگر ان کے شوہر بہتر نوکری نہیں کر پاتے اور انہیں باہر نکلنا پڑتا ہے۔کام کرنا پڑتا ہے مگر حالات جیسے بھی ہوں لیکن خواتین کے منہ پر شکایات کا ایک انبار لگا ہوتا ہے۔جب وہ گھر میں ہوتی تھیں تو ساس سسر نند دیوانی جیٹھانی سے شکایت شوہر سے سب سے زیادہ شکایت کے وہ اپنے گھر والوں کے ہی ہیں بیوی کی کوئی فکر نہیں۔حالانکہ اکثر مرد اپنی بیوی بچوں کے لیے ہی کما رہے ہوتے تھے۔مگر خواتین دن بھر گھر میں ہوتی تھیں تو ہر کوئی برا لگتا تھا ساس کو بہو بری لگ رہی ہے تو نند کو بھابھی ایسے میں شوہر جب شام کو گھر آتا ہے تو اس سے دن بھر کی شکایت کا دفتر کھل جاتا ہے۔کہیں بیوی شکایت کر رہی ہے تو کہیں ماں کہیں بہن یوں ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیا جاتا۔جب خواتین نے نوکری کرنا شروع کی تو اب تھوڑا بہت حالات کا موڑ بھلا دن بھر گھر سے باہر رہنے کی وجہ سے اور مصروفیت کی وجہ سے بہت سارے خاندان جدا ہوئے۔اب ساس نند اور دوسرے لوگوں کا وہ زور تو نہیں مگر شکایت کا رخ شوہر کی طرف ہو گیا۔کسی کو یہ شکایت کے وہ کام نہیں کرتا کسی کو یہ شکایت کے وہ گھر کے کام میں مدد نہیں کرتا۔شکایتوں کا دفتر ابھی بھی کھلا رہتا ہے۔اس دوران ہم اپنے شوہر کی تمام خوبیاں بھول جاتے ہیں صرف برائیاں یاد رہتی ہیں۔کوفت اور غصہ ہمیشہ سوار رہتا ہے اور یہ غصہ ہمیشہ شوہر پر ہی اترتا ہے۔یہ میں کسی عورت کی برائی نہیں کررہی ہوں بلکہ یہ بتلا رہی ہوں کے یہ عورت کی کمزوری ہے۔کے وہ شوہر کی ناشکری کرتی ہے اور اسے برا بھلا کہہ کر تسکین پاتی ہے۔اس وجہ سے حضور کی یہ حدیث ہے کے عورتوں کو اللہ سے معافی زیادہ مانگنا چاہئے اور استغفار کرتے رہنا چاہئے اور زیادہ سے زیادہ صدقہ دینا چاہئے کیونکہ وہ اپنے شوہروں کی ناشکری ہوتی ہیںاور لوگوں کو برا بھلا کہنے میںیا پھر غیبت کرنے میں اپنا کافی وقت گزارتی ہیں۔اس لیے ہمیں بہت صدقہ دینا چاہئے اور ہمیشہ اللہ سے معافی بھی مانگتے رہنا چاہئے۔اور شکوہ شکایت سے دور رہناچاہئے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here