حیدر علی
جب میں نے نیویارک ٹائمز میں یہ خبر دیکھی کہ امریکا سے تعلق رکھنے والے کسی شاعر کو ادب کے نوبل انعام سے نوازا گیا ہے تو میرے دِل میں فورا” یہ خیال آیا کہ شاید وہ کوئی پاکستانی نژاد امریکی ہو،روز روز کے مشاعرے کرانے اور اُس کی روداد اخبار میں شائع کروانے کا کچھ نا کچھ صلہ تو ملنا چاہیے تھا،ایک ملین ڈالر سے زائد کی رقم بطور انعام کسی پاکستانی شاعر کو مل جاتی تو وہ یقینا ہر ہفتے کباب کنگ میں نہ صرف مشاعرے کا اہتمام کراتا بلکہ اُس کے خرچ کو بھی برداشت کرتا، خوبصورت غزل پر اُسے داد تو ملنی ہی ملنی تھی۔ در حقیقت شاعری پر پاکستانی شاعر کو نوبل پرائز کا نہ ملنا میرے لئے ایک باعث تکلیف دہ امر ہے اور میں اِسے صریحا”نا انصافی ، نسل پرستی اور تہذیبی تصادم کا شاخسانہ قرار دیتا ہوں،کتنے اچھے اچھے شاعر فیض احمد فیض ، احمد فراز ، ساحر لدھیانوی اور درجنوں دوسرے اِس خوش نصیبی کی خواہش اپنے دِل میں لئے داغ مفارقت دے کر چل بسے لیکن میں دِل کی گہرائی سے یہ کہتا ہوں کہ وہ شاعر آج بھی نوبل انعام یافتہ شاعروں سے زیادہ خوش نصیب ہیں کیونکہ آج بھی اُن کے عقیدت مندوں کی تعدادنوبل انعام پانے والوں سے کہیں زیادہ ہے ، اور آئندہ بھی رہے گی ۔ بہرحال جب میں نے انعام پانے یا پانی والی کی تصویر دیکھی اور نام پڑھا جو لوئیس گُلک تھا ، تو مجھے ایسا لگا جیسے وہ کوئی مرد ہے تاہم میرا اندازہ قطعا”غلط تھا ،سال 2020ءکی ادب میں نوبل پرائز پانے والی 77 سالہ خاتون لوئیس گُلک کی پیدائش اِسی نیویارک شہر میں ہوئی ہے اور پرورش اُنہوں نے لانگ آئی لینڈ میں پائی تھیں، ہائی اسکول کے زمانے ہی سے وہ نفسیاتی مرض کا شکار ہو گئیں تھیں ، جس میں بھوک کا نہ لگنا اور اپنے آپ کو دُبلا رکھنے کی جنونی حد تک کوشش کرنا شامل تھا ، اگرچہ وہ کولمبیا یونیورسٹی اعلی تعلیم کے حصول کیلئے گئیں تھیں لیکن کوئی ڈگری حاصل نہ کرسکیں، نفسیاتی مرض کے علاج کیلئے لوئیس کو تعلیمی سرگرمیوں کو خیر باد کرنا پڑا ، تاہم وہ متعدد درسگاہوں میں ادب و شاعری میں پختگی حاصل کرنے کیلئے داخلہ لیا اور کامیابی حاصل کیں۔ لوئیس نے دو شادیاں کیں جو دونوں ناکامیاب ثابت ہوئیں ،لوئیس کے والدین کا تعلق روس اور ہنگری سے تھا، اور وہ نیویارک میں گروسری کا ایک اسٹورچلایاکرتے تھے۔لوئیس گلک تقریبا”ایک درجن سے زائد مجموعہ کلام کی خالق ہیں،اُن کی شاعری عشق و محبت کے بجائے غم و اندوہناک کہانیوں کی ترجمان ہو تیں ہیں، جسے شاعرہ نے انتہائی بے خودی، ذاتی داخلیت کو آلہ کار بناکر پیش کرنے کی تکنیک کا بھر پور استعمال کیا ہے، بالفاظ دیگر اُنہیں ایک نوحہ خواں شاعرہ قرار دیا جائے تو نا مناسب نہ ہوگا، اُن کے نغموں کا زیادہ تر عنوان احساسات کی گہرائی، تنہائی، ازواجی تعلقات ، طلاق اور موت رہی ہے، اُن کی ایک نظم ” مائیتھ آف ڈیووشن “ کے چند اشعار ملاحظہ فر مائیں:
جب ہیڈیز (محبت کے خدا ) کا یہ فیصلہ تھا کہ اُسے ایک لڑکی سے محبت ہوگئی ہے
اُس نے اُس کےلئے ایک خوابوں کی دنیا بنانے کا فیصلہ کیا
سب کچھ پہلے جیسا ، ماسوائے اُس نے سبزہ زار پر ایک بستر رکھ دیا
سب کچھ پہلے جیسا ما سوائے سورج کی تیز روشنی کے
کیونکہ ایک چھوٹی سی لڑکی کیلئے یہ دشوار ہوتا کہ
وہ اچانک روشنیوں کی آماجگاہ سے اندھیرے کی مکین بن جاتی
رفتہ رفتہ اُس نے سوچا کہ وہ رات کی رنگت سے بھی اُسے آگاہ کریگا
سب سے اول خزاں کے اڑتے ہوے پتوں کے جمگھٹ سے
پھر چاند اور ستاروں سے
اور پھر نہ چاند اور نہ ستاروں کے
اُس نے سوچا کہ جلد پریسفون ( زراعت کی دیوی) اِس کی عادی بن جائیگی
اور وہ اِس سے محفوظ ہوا کرے گی
اُس نے یہ کہنا چاہا کہ مجھے تم سے محبت ہے
تمہیں کوئی زُک نہیں پہنچا سکتا ہے
لیکن اُس نے سوچا کہ یہ ایک جھوٹ ہے
اِسلئے اُس نے دوبارہ کہا کہ
تم مر چکی ہو ، تمہیں کوئی زُک نہیں پہنچا سکتا ہے۔
زندگی کے نشیب و فراز کے باوجود لوئیس گلک نے اپنے پہلے مجموعہ کلام ”فرسٹ بورن“ 1967ءمیں شائع کروایا، جس کی پذیرائی ادبی حلقوں میں خاطر خواہ نہ ہوسکی بعد ازاں لوئیس گلک نے ویرماو¿نٹ کے ایک کالج میں شاعری کے پروفیسر کے طور پر کام کرنا شروع کردیا ، جس کی وجہ کر اُنکے تعلقات ادبی حلقوں میں نمایاں ہونے لگے تاہم 1980ءمیں لوئیس گلک کی شاعری کا تیسرا مجموعہ کلام ”ڈیسنڈنگ فیگر“ شائع ہوا تو اُس میں الفاظ کی شدت اور موضوع کے انتخاب پر بعض ناقدین نے اِسے ضرب قلم کا نشانہ بنایا۔شاعر گریگ کُزما نے لوئیس گلک کو ”چائلڈ ہیٹر “ قرار دینے سے ہچکچاہٹ نہ کی، 2004ءمیں لوئیس گلک نے” اکتوبر“ کے عنوان سے نائن الیون کے موضوع پر ایک طویل نظم کتابی صورت میں شائع کی جسے ادبی حلقے میں کافی سراہا گیا۔