آہ راشد ربانی مرحوم سابق سینیٹر پیپلزپارٹی

0
221
شمیم سیّد
شمیم سیّد

 

شمیم سیّد،بیوروچیف ہیوسٹن

کراچی کا ایک اور بہادر سپوت جو بہت ہی خوبصورت طبیعت کا مالک نہایت ملنسار محبت کرنے والا بڑوں کی عزت کرنے والا اس دنیائے فانی سے اچانک کُوچ کر گیا اور پیپلزپارٹی ایک اپنے سچے اور جیالے ذوالفقار علی بھٹو اور بی بی شہید کے سپاہی اور کارکن سے محروم ہو گئی، راشد ربانی پیپلزپارٹی کی سیاست کا وہ کارکن تھا جو یکجہتی پر یقین رکھتا تھا نہ اس نے اپنے اوپر کوئی علاقائی، صوبائیت یا کوئی اور تعصبی عنصر کو اپنے قریب آنے دیا وہ صرف اور صرف انسانیت کو ترجیح دیتے تھے کیا لکھوں اُن کیلئے کئی مہینے پہلے ان کو کرونا کا اٹیک ہوا تھا میں نے ان سے فون پر بات کی تھی بہت خوشی کا اظہار کیا اور اپنی صحت کے بارے میں آگاہ کیا کیونکہ راشد بھائی ہیوسٹن آتے جاتے رہتے تھے سید ریاض حسین جو ہیوسٹن پیپلزپارٹی کے صدر رہ چکے ہیں ان کے بہنوئی تھے جب بھی کراچی جانا ہوتا تھا راشد بھائی بڑے خلوص و محبت سے ملتے اور ان کےساتھ اچھا وقت گزرتا تھا وہ سندھ سیکرٹریٹ بھی لے جا کر جاتے اور ہمیں وہاں کے سٹاف سے ملواتے تھے اور جب وہ یہاں آتے تو ان کے اعزاز میں ایک پروگرام تو ضرور ہوتا تھا اور اس میں ہیوسٹن کی نہایت مُعتبر شخصیات، مختلف نظریات رکھنے والے سب ان کی محبت میں شرکت کرتے تھے۔ راشد ربانی کا شمار پیپلزپارٹی کے ان چند لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی سیاست کا آغاز شہید ذوالفقار علی بھٹو کی زندگی میں کیا پیپلزپارٹی ان کی پہلی سیاسی جماعت تھی اور آخر وقت تک وہ پیپلزپارٹی سے منسلک رہے۔ نظریاتی سپاہی تھے، پیپلزپارٹی کی تنظیم سازی میں سب سے کم عمر اپنے علاقہ کے چیئرمین (وارڈ صدر) نے جب ضیاءالحق کے دور میں پیپلزپارٹی کا تختہ اُلٹا گیا ،اس وقت بڑے برے نام آمریت کے خوف سے خاموش رہے اور کسی میں ہمت نہ ہوئی کہ وہ ضیاءالحق کےخلاف آواز بلند کر سکے، ایسے میں کراچی، پاکستان چوک کا نوجوان آمریت کیخلاف کھڑا ہو گیا اور ضیاءالحق کی آمریت کو چیلنج کیا اور عوام کو بیدار کیا وہ دوسرے لیڈران کی طرح خاموش نہیں رہا اس نے جیل کی صعوبتیں بھی برداشت کیں ،اس پر تشدد بھی ہوا لیکن وہ شہید بھٹو کا وہ سپاہی تھا جو نہ جیل جانے سے ڈرا اور نہ تشدد سے پریشان ہوا، جب اس کو بم دھماکوں اور قتل کے کیس میں موت کی کوٹری میں بند کیا گیا اس وقت بھی یہ مسکراتا تھا اور موت سے نہیں ڈرتا تھا۔ انہوں نے جلا وطنی کی زندگی بھی گزاری لیکن اپنے قائد شہید ذوالفقار علی بھٹو شہید، محترمہ بینظیر بھٹو شہید کا ساتھ نہیں چھوڑا اور اس کے بعد آصف علی زرداری اب بلاول بھٹو زرداری سے اپنی محبت نبھا رہے تھے۔ کراچی میں بارش کے باعث جو گندگی پھیلی ہوئی تھی وہ جگہ جگہ جاتے رہے بغیر کسی خوف کے ان کو وہیں سے کرونا لگ گیا اور وہ پندرہ دن اپنے گھر میں بند ہے اور اللہ کے فضل سے ٹھیک ہو گئے لیکن کرونا نے ان کے پھیپھڑوں میں جگہ بنا لی تھی اور وہ دوبارہ ہسپتال میں داخل ہو گئے اور جانبر نہ ہو سکے اور اللہ کو پیارے ہو گئے۔ گوجرانوالہ جلسہ کی وجہ سے ان کو میڈیا پر وہ کوریج نہیں دی گئی جو ایک لیڈر کے شیان شان ہوتی ہے اور نہ ہی کسی لیڈر کا بیان آیا اور گوجرانوالہ کے جلسے کے بعد خیال آیا کہ ہمارا سچا سپاہی اس دنیا سے رخصت ہو گیا ہے پھر سب بیانات اور کراچی کے جلسے میں ان کیلئے دعا کی گئی یہ ہوتا ہے ہمارے ملک میں جس شخص نے اپنی جوانی سے لے کر 67 سال تک کی عمر تک اپنی پارٹی کی خدمت کی اور کبھی بھی پارٹی نہیں چھوڑی کم از کم اس کےساتھ تو انصاف ہوتا ارے ہماری قوم نے تو شہید ذوالفقار علی بھٹو کو جب پھانسی دی گئی اس وقت گھروں سے نہیں نکلی تو بیچارے راشد حسین ربانی کیلئے کیا کرینگے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پیپلزپارٹی ان کیلئے کیا کرتی ہے ان کی فیملی کا کتنا خیال کرتی ہے اللہ تعالیٰ راشد بھائی کے درجات بلند کرے اور ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطاءفرمائے، پیپلزپارٹی میں اب کوئی دوسرا راشد ربانی پیدا نہیں ہو سکتا اور نہ ہی ان کا خلاءکوئی پورا کر سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ راشد ربانی کی فیملی کو اور سید ریاض حسین کو صبر جمیل عطاءفرمائے۔
ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here