(کالم کا آغاز ہوتا ہے جب میرے بھانجے نے ہمیں افطار ڈنر پر مدعو کیا ، لیکن اُن کی والدہ یعنی ہماری آپا نے اِسے یہ کہہ کر یکسر مسترد کردیا کہ ماہ رمضان صرف پکوڑے اور سموسے کھانے کیلئے نہیں ہوتا. اُنہوں نے افطار ڈنر کی کال واپس لے لی.)پیٹ نے مجھ سے کہا کہ ” میں خالی ہوں.” میں نے جواب دیا کہ ” یار میں کیا کروں. اگر تین نان کھانے کے بعد بھی تمہاری بھوک ختم نہیں ہوئی . تم اُسی طرح اُچھل رہے ، مچل رہے ہو جیسے تین ماہ کا بچہ دودھ نہ ملنے کی وجہ کر روتا ہے بلکتا ہے. آخر تم چاہتے کیا ہو؟ کیا تم چاہتے ہو کہ گاؤں کے بانگڑو کی طرح دس نان کھالو ، اور روزہ رمضان کا کچھ خیال نہ کرو. رمضان کا ماہ ہوتا ہی اِسلئے ہے کہ پیرو کار اِسلام کو دوسرے لوگوں کی بھوک کا احساس ہو ، اور وہ اُن کی مدد مختصرو طویل المدت کیلئے کریں. پیٹ نے مجھ سے پھر کہا کہ ” بھوک اِس لئے لگ رہی ہے ، کیونکہ میں نے افطار میں پکوڑے نہیں کھائے ہیں.” تب ساری بات میری سمجھ میں آگئی. میرے گھر میں مارشل لا لگ چکا ہے ، اور ہماری بیگم ہیں چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر . اُن کا فرمان ہے کہ ماہ رمضان میں کوئی روزانہ پکوڑا نہیں بنا کریگا، جس کے کھانے کے بعد ہر ایک کا پیٹ چھ انچ نکل آئے . پکوڑا ہر دوسرے روز بنے گا، اور جس کے کھانے پر بھی پابندی عائد ہوگی، پکوڑا راشن سے ملا کریگا، کوئی دو پکوڑے سے زیادہ نہ کھا سکے گا. میری بیگم نے سبھوں کو بہلانے کیلئے یہ کہا کہ ہم پکوڑے کے بدلے فروٹ چاٹ کھا سکتے ہیں، گھنگنی اور نمکین بسکٹ کھا سکتے ہیں. میری بیگم نے اُس پر سختی سے عملداری بھی شروع کردی. پیٹ نے مجھ سے پھر کہا ” کچھ کرو.” میں نے غصے میں جواب دیا کہ ”کیا کروں، ویسے گھبرانے کو کوئی بات نہیں. آخر دوست احباب اور رشتہ دار کس لئے ہیں . اُن کے یہاں ضرور پکوڑا بنتا ہوگا. میں نے پیٹ کو دلاسا دیا کہ ” کچھ کر رہا ہوں. صبر کرو .” لیکن اُسی دِن شام کو میرے بھانجے کا فون آگیا. اُنہوں نے فرمایا کہ ” ماموں جان میں نے صبح کو ممانی جان کو ہفتے کے دِن افطار پر شرکت کی دعوت دی تھی. لیکن اُنہوں نے شرکت سے صریحا” انکار کردیا. اُنہوں نے کہا کہ کوئی افطار پارٹی وغیرہ نہیں. رمضان و عید سادگی سے منانی ہے. پکوڑے، دہی بڑے، شاہی ٹکرے اور کھانے میں پراٹھا اور بھونا گوشت نہیں کھانا ہے. البتہ شام کو پارک میں جاکر فٹ بال کھیلنا ممکن ہے. اِسی لئے تو میں پارک میں ہوں.”میں نے بھانجے کو کہا کہ ” گھبرانے کی کوئی بات نہیں . میں نے اِس کا ایک آزمودہ حل نکال لیا ہے. جب آپ کسی کے گھر یا کسی سماجی تقریب میں افطار پارٹی میں نہیں جاسکتے تو یہ کوئی ضروری نہیں کہ آپ کسی کو اپنے گھر افطار پر نہیں بلا سکتے ہیں. اور جب ایک درجن لوگوں کو اپنے گھر دعوت پر بلا سکتے ہیں کہ تو دو درجن لوگوں کے گھر بھی آپ افطار ڈنر پر جا سکتے ہیں. افطار کا مطلب ہی ہے پکوڑے، سموسہ ، دہی بڑا، کچوڑی، بھونا گوشت اور تندوری چکن. میری بیگم نے اِس کی تائید کردی لیکن اِس کے ساتھ ہی اُنہوں نے مجھے تاکید بھی کردی کہ میں تمام مدعوئین کو یہ آگاہ کردونگا کہ افطار ڈنر میں زیادہ مقدار میں پکوڑا سموسہ اور تلی ہوئی چیزیں وغیرہ وغیرہ نہیں ہوا کریں گی.
مدعوئین کی فہرست میں سب سے پہلے میرے پرانے دوست میجر عاطف علی تھے. اُنہیں پاکستان فوج سے ریٹائر ہوے 25 سال گذر چکے ہیں ، لیکن تاہنوز وہ اپنے نام کے ساتھ میجر لگانے میں فخر محسوس کرتے ہیں. بعض مرتبہ مقامی لوگوں کو اُن کا میجر کا رینک شک و شبہ میں مبتلا کر دیتا ہے کہ آخر دو ٹن کا یہ مسٹنڈا امریکی فوج میں میجر کس طرح ہوگیا تھا. اُنہیں مجبورا”یہ باور کرانا پڑتا ہے کہ وہ امریکی فوج میں
نہیں بلکہ پاکستان کی فوج میں میجر کے عہدے پر فائز تھے. بہرکیف میرے میجر دوست کو ہمیشہ یہ توقع رہتی ہے کہ آئندہ پیر کے دِن پاکستان میں مارشل لانافذ ہوجائیگا.میں نے اپنے دوست میجر عاطف کو افطار ڈنر پر مدعو کرتے ہوے یہ فرمایا کہ ” پاکستان کے لوگ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ وہاں مارشل لا کب لگنا ہے. وہاں کی فوج کو دیواروں سے چھلانگ لگائے ہوے کافی دِن گذر چکے ہیں. کچھ اُن کی ورزش بھی ہونی چاہیے. میڈیا پر کچھ بریکنگ نیوز کی بھی ضرورت ہے. لوگ یہی جاننے کیلئے آپ کے ساتھ ایک محفل میں جمع ہونا چاہتے ہیں.میں اِس تقریب کیلئے ایک افطار ڈنر کا اہتمام کیا ہوں.”
اُنہوں نے فورا”پوچھ لیا کہ ” اچھا یہ بتاؤ افطار ڈنر میں کیا کیا ہوگا؟” میں نے اُنہیں بتایا کہ ” افطار ڈنر میں امریکا میں جو کچھ ہوتا ہے وہی ہوگا، مثلا”خربوزہ، تربوزہ، ہنیڈیو، پپیتا ، شلجم ، گاجر وغیرہ وغیرہ.
درحقیقت ہماری بیگم یہ نہیں چاہتیں کہ افطار پارٹی کے مدعوئین پکوڑے اور سموسہ کھا کر اور بھی پھول جائیں . آپ تو ماشا اﷲ پہلے ہی سے بھولو پہلوان ہیں. ” اُنہوں نے سُن کر کہا کہ ” یہ ساری چیزیں تو ہمارا طوطا اور ہمارے دشمن کھاتے ہیں. ہمارے ملک کو بھو لو پہلوان جیسے لوگوں کی ہی ضرورت ہے جنہیں دیکھ کر دشمن کے پیر لرز پڑیں. دیکھئے جناب ! رمضان شریف سال میں صرف ایک ماہ کیلئے آتا ہے. میں نہیں چاہتا کہ اِس دوران تربوزہ ، خر بوزہ کھا کر خوار ہوں. یہ صرف کنجوس لوگ ہی افطار میں واٹر ڈِش کھلا کر روزہ داروں کی مٹی پلید کر دیتے ہیں.”
میں نے میجر صاحب کے مزاج کو بھانپ لیا ، اِسلئے میں اپنے ایک دوسرے دوست شاہد کو افطار ڈنر میں مدعو کرنے کی کوشش کی. وہ فورا”ہی پھٹ پڑے اور کہا کہ ” ارے یار کیا بتاؤں گذشتہ کل ہی میں مرزا صاحب کے گھر افطار پارٹی پر مدعو تھا، ماشااﷲ کیا افطاری تھی، کیا ڈنر تھا. ڈنر میں بہاری کباب ، حلیم ،
تندوری چکن اور خالص گھی میں تلا ہوا پراٹھا . ” ”وہ تو ٹھیک ہے ، لیکن میرے گھر میں یہ سب وزن بڑھانے والی چیزوں سے آپ کی تواضع نہیں کی جائینگی. ہم افطاری میں آپ کو واٹر ڈِش پیش کرینگے. کیا آپ پھر بھی تشریف لائینگے؟” ” صرف ایک صورت میں کہ اگر میں خودکشی کر لوں تو آپ ہماری میت کو ہمارے گھر پہنچادینگے.” میرے دوست نے جواب دیا.