!!!تعصب کرونا اور انڈیا

0
150
رعنا کوثر
رعنا کوثر

جیسا کہ ہم جانتے ہیں پوری دنیا میں کرونا وائرس نے انسان کے جسم کو ہی نہیں اس کی سوچ کو اس کی روح کو ہی جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے۔دوسرے ممالک میں جب یہ وائرس آیا تو لوگوں کے کیا احساسات تھے یہ تو نہیں معلوم مگر چونکہ ہمارا پڑوسی ملک انڈیا جہاں ہمارے ہم زبان رہتے ہیں۔ہم مذہب تو نہیں کہوں گی کے وہاں ہندو بھی رہتے ہیں اور سکھ بھی اور ہمارے والدین چونکہ وہاں سے ہجرت کرکے آئے تھے۔اس لئے وہاں ہمارے رشتہ دار بھی رہتے ہیںاور بھلا ہونئی ٹیکنالوجی کا کہ اب ان سے وقت ضرورت رابطہ بھی ہوجاتا ہے۔اور وہ ہمیں اپنے دل کا مال بتاتے ہیں۔اب سے کچھ عرصے پہلے کی بات ہے کہ مسلمانوں کی کیثر تعداد ایک تعصب کا شکار ہوئی اور یہ کہا گیا کے سلمان اپنے انڈیا میں قانونی طور پر رہنے کا ثبوت لائیٹس اور اپنے باپ دادا کے پیدائشی ہونے کا سرٹیفکیٹ دکھائیں۔اس پر ظاہر ہے کے مسلمان پریشان ہوگئے وہ انڈیا سے نکل کر کہاں جائیں گے۔اگر غیر قانونی قرار دیے دیئے گئے۔دہلی میں مہینوں خواتین احتجاج میں بیٹھی رہیں بہت ہنگامے رہے اس کے بعد ایک پارٹی نے مسلمانوں کے خلاف باقاعدہ گروپ بنا لیا۔اور یہ کہنا شروع کیا کے ان کا بائیکاٹ کرایا جائے اور کوئی ان کی دوکان سے سامان نہ خریدے۔غربت کا یہ عالم ہوا کے مسلمان لڑکوں نے ان کی مدد کا فیصلہ کیا۔اپنے باہر رہنے والے رشتہ داروں سے پیسے منگوائے راشن خرید کر ان غریب گھرانوں میں تقسیم کیے اور وہ بھی خاموشی سے اگر پتہ چل گیا کون راشن بانٹ رہا ہے تو اس کی بھی خیر نہیں انڈیا میں کافی تعداد میں غریب مسلمان رہتے ہیں۔جو رکشے چلاتے ہیں فروٹ بیچتے ہیں۔چوڑیاں بیچتے ہیں ان کے ہاں فاقوں کی نوبت آگئی یہ دور ختم ہوا تو پوری دنیا تو کرونا وائرس کی لپیٹ میں آگئی ہے۔مگر حال ہی میں انڈیا کی آبادی انتہائی متاثر ہوئی ہے اس میں ہندو مسلمان اور سکھ سب ہی انتہائی تکلیف سے گزر رہے ہیں۔اور جان سے جا رہے ہیں۔بے شمار گھرانے سونے ہوچکے ہیں۔عورتوں کے سہاگ چلے گئے اسکو دو دو تین بچے ایک ہی گھر کے مر گئے وائرس میں کسی قسم کا تعصب نہیں ہے وہ ہر ایک کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔گھر ویران ہو چکے ہیں۔ایسے میں اپنے رشتہ داروں سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ بے شمار جاننے والے دنیا سے چلے گئے۔اور اس افراتفری کے دور میں مسلمان اور سکھ آگے بڑھ کر بہت کام کر رہے ہیں۔کئی لڑکے اسی کام کے لئے معمور ہیں کے مسلمانوں کی لاشیں دفن کریں اور ہندوئوں کو جلائیں۔سب تعصب ختم ہوچکا ہے کے کون ہندو ہے اور کون مسلمان کون سکھ ہے۔جو امیر ہیں وہ ہسپتالوں کو چندہ دے رہے ہیںجو غریب ہیں وہ بڑھ چڑھ کر ایک دوسرے کی مدد کر رہے ہیں یہ سوچے بغیر کے کون کس مذہب کا ہے۔وہی ہندوستان جہاں کچھ عرصے پہلے مسلمانوں کے خلاف نفرت کی آگ بھڑکائی جارہی تھی آج وہاں ایک دوسرے کے لیے ہمدردی آرہی ہے۔وہی مسلمان جنہیں مارنے اور ملک بدر کرنے کی باتیں ہو رہی تھیں اپنے ہندو پڑوسیوں اور محلے والوں کی دل کھول کر مدد کر رہے ہیں۔
ان تمام باتوں کو دیکھ کر یہ اساس جاگتا ہے کہ تعصب عداوت دشمنی چاہے ملک گیر پیمانے پر ہو یا آپس میں ہو سب کچھ اسی وقت ہوتا ہے جب آپ کا انتہائی خوشگوار دور چل رہا ہوتا ہے۔تکلیف پریشانی اور آزمائش انسان کو انسان سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔ایک انسان ہندو، مسلمان، سکھ،شیعہ، سنی یا کسی اور مسلک کا نہیں رہتا صرف ایک خدا کا اس دنیا میں بھیجا ہوا ایک بندہ ہوتا ہے۔جس کے خون کا رنگ ایک ہوتا ہے جو ایک جراثیم کے اندر داخل ہونے سے ایک جیسی بیماری ہی پیدا کرتا ہے۔وقت گزر جائے گا مگر کیا تعصب دلوں سے ختم ہوجائے گا۔کیا جہالت کا دور ختم ہوجائے گا۔خدا کرے کرونا وائرس کا خاتمہ ہو اور ساتھ ہی تعصب کا بھی۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here