!!!وطن کی خاطر یکجہتی لازم ہے

0
185
جاوید رانا

ہم نے دو ہفتہ قبل اپنے کالم بحران در بحران میں بعض اشارے دیتے ہوئے عمران خان کی حکومت کو پے درپے مشکلات کے حوالے سے مخالف سیاسی اشرافیہ، انتظامی عمال و پالتو میڈیا کی حکومت مخالف سازشوں کی نشاندہی کی تھی کہ اس وقت جب مقتدر حلقے بھرپور طریقے سے تعاون کر رہے ہیں وہ ملک کے ان میر جعفروں، میر صادقوں کے مکروہ عزائم کو ناکام بنانے کیلئے عوام کے مسائل پر توجہ دے کر عوامی حمایت کو اپنے حق میں مستحکم کریں، اپنی اندرونی صفوں میں اختلافی خلیج کو پاٹیں اور ملک دشمن، غرض کے غلام سیاستدانوں کے رویوں کو سامنے لائیں۔ ایسا لگتا ہے کہ برسوں کی سیاست میں ملوث گھاگ سیاسی شیطانوں کو عوام کے سامنے ننگا کرنے کا کام کپتان اور ان کی ٹیم کیلئے اپنی سیاسی نا تجربہ کاری کے باعث مشکل ہوتا جا رہا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ عوام میں تبدیلی حکومت کے حوالے سے مایوسی اور بے اطمینانی بڑھ رہی ہے۔ اس کی واضح نشاندہی ضمنی انتخابات میں حکومتی امیدواروں کی شکست کی صورت میں سامنے آرہی ہے۔ کراچی کے حلقہ 249 میں پی ٹی آئی کی پانچویں پوزیشن اس کی تازہ ترین مثال ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انتخاب سے قبل ہونیوالے سرویز میں تحریک انصاف کو برتری و کامیابی کے اشارئیے سامنے آرہے تھے لیکن نتائج نے قطع نظر اس کے کہ اس الیکشن پر سارے ہی فریقوں کے تحفظات اور الیکشن کمیشن نے نتائج کا اعلان روک دیا ہے، تحریک انصاف کے سامنے بہت سے سوال اُٹھا دیئے ہیں جن پر کپتان کو غور کر کے آگے بڑھنا ہوگا۔ کسی بھی ریاست کے استقلال و سلامتی کا دارومدار اس کے تین بنیادی ستونوں پر ہوتا ہے، انتظامیہ (یعنی حکومت اور اس کے ادارے) مقننہ اور عدلیہ جبکہ میڈیا ریاست کا چوتھا ستون کہلاتا ہے۔ ان ستونوں میں سے کسی ایک میں دراڑ پڑ جائے تو عمارت کمزور ہو جاتی ہے۔ وطن عزیز کی بدنصیبی یہ ہے کہ عوام تو وطن کی وفاداری و محبت میں سرشار ہیں لیکن رہنمائی کے دعویدار سیاسی رہزن نہ صرف جُھرلو اور دھاندلیوں سے حق حکمرانی کے مزے لوٹتے رہے ہیں بلکہ ریاست کے دیگر ستونوں کو اپنے ناپاک عزائم و لوٹ مار میں مطیع بنا کر ملک کی جڑیں کمزور کرتے رہے ہیں۔ اپنے عزائم کے حصول کیلئے انہوں نے کرپشن، بے جانوازشوں اور دھونس دھاندلی سے بیوروکریسی میں اپنے لوگ شامل کئے، میڈیا کو خریدا، عدلیہ پر دبائو ڈالے، اپنے ادوار حکومت میں ایسے منصف لگائے جو ان کے حق میں فیصلے دیں۔ وطن و عوام دشمنی کے اس کھیل میں اسٹیبلشمنٹ یا دوسرے الفاظ میں فوج واحد ادارہ ایسا رہ گیا ہے جو ملک اور عوام کیلئے برسرپیکار ہے۔ سرحدوں کی حفاظت سے لے کر تمام داخلی، خارجی، انتظامی و عوامی بہبود کے حوالے سے لوگوں کی امید کا مرکز ہے۔ عمران خان کی قیادت میں تحریک انصاف کی کامیابی اور حکومت سازی، کرپٹ حکمرانوں و مافیا سے تنگ آکر ایک شفاف اور عوام دوست پارٹی کو اقتدار میں لانا تھا۔ اچھی بات یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے بھی اس تبدیلی اور عمران خان کے منشور و اہداف کو خوش آمدید کہا لیکن شکست خوردہ سیاسی قوتوں اور ان کے گماشتوں کیلئے یہ تبدیلی قابل قبول نہ تھی۔ مخالفین کی شورشوں، سازشوں، بکے ہوئے بیوروکریٹس، میڈیا اینکروں کی مخالفانہ اسٹریٹجی و پروپیگنڈہ ایک جانب حکومت کیلئے سوہان روح بنا تو دوسری طرف خود حکومت کی ناتجربہ کاری، اقتدار کے تسلسل کیلئے Electables اور دیگر جماعتوں سے اشتراک نیز پچھلے حکمرانوں کی لُوٹ مار کے باعث معاشی ناہمواریوں اور نظام میں بہتری کیلئے بے سمت کوششوں و ناواقفیت نے تحریک انصاف کی مقبولیت کو متاثر کیا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ ضمنی انتخابات میں مخالفین کامیابیاں سمیٹتے رہے۔ عمران خان کے متعدد عوامی و ملکی مفاد کے منصوبے اور اقدامات بھی عوام تک مثبت پیغام بھی نہ پہنچا سکے۔ ان سیاسی طالع آزمائوں نے اس کا فائدہ اٹھایا۔ نوازشریف اور مریم نواز نے اپنے جرائم و سزائوں کے خوف سے نجات کیلئے فوج کو بھی ہدف بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی اور نجم سیٹھی، حامد میر، سلیم صافی، منصور علی خان جیسے لوگوں نے بُھس میں چنگاری ڈالنے میں کوئی کمی نہ کی۔
سوشل میڈیا پر نجم سیٹھی نے سینئر صحافیوں سے آرمی چیف سے ایک بریفنگ کے حوالے سے فرائیڈے ٹائمز ڈاٹ کام میں ایک کالم لکھا جس میں اس نے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو مقبوضہ کشمیر کے کشمیریوں کے زخم ہرے کرنے کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے اس نکتے کو واجب بحث قرار دیا ہے کہ کیا آرمی چیف نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دینے کے تصور سے دستبرداری کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس تصور سے ہماری فوجی قیادت تو کیا، پاکستان کا کوئی بچہ بھی دستبردار ہونے کا نہیں سوچ سکتا۔ درحقیقت یہ تصور تو بانیٔ پاکستان حضرت قائداعظم کا تھا جوہر پاکستانی کیلئے حرزِ جان ہے۔ دراصل یہ سوچ اس بکے ہوئے نوازشریف کے پٹھوئوں، سی آئی اے کے سابق ایجنٹوں کی ہے اور اس کا مقصد عمران اور فوج کے درمیان افتراق ڈالنے کیلئے ماحول بنانا ہے۔ نوازشریف کے دور میں پی سی بی کا صدر بننے و دیگر مراعات حاصل کرنے والے اور 2013 میں پنجاب کا عبوری وزیراعلیٰ بن کر 35 پنکچر لگانے والے اس شیطان نے اپنے کالم میں فوج کے بھارت سے مفاہمت کی راہ کھولنے اور عمران کے بھارت سے مذاکرات کے دروازے بند کرنے کا شوشہ چھوڑ کر مزید آگ بھڑکانے کی کوشش کرتے ہوئے یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ پاک بھارت تعلقات کی بہتری اور داخلی حالات کے استحکام کیلئے اسٹیبلشمنٹ کو نوازشریف سے تعلق استوار کرنا چاہئیں۔ گویا نجم سیٹھی وہی راگ الاپ رہا ہے جو نوازشریف اور اس کی بیٹی کا ہے۔
نوازشریف کے بکے ہوئے اس پٹھو کی پول اور جھوٹے بیانیے کی تردید ایکسپریس نیوز میں جاوید چوہدری کے کالم میں واضح نظر آئی۔ جاوید چودھری نے جو آرمی چیف کی متذکرہ میٹنگ میں شریک تھے کھل کر لکھا ہے کہ آرمی چیف نے نہ صرف داخلی و خارجی امور بشمول کشمیر پر حکومت و فوج کے متفقہ نکتۂ نظر و لائحہ عمل پر روشنی ڈالی بلکہ نوازشریف کی اپنے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کیساتھ مل کر مکروہانہ حرکتوں کی تفصیل افشاء کر دی ہے۔ کافی عرصے بعد آرمی چیف نے چُپ کا روزہ ختم کر کے نوازشریف و اسحاق ڈار جعلی 5.8 فیصد گروتھ ریٹ، ویسپا والوں سے کاروبار کے آغاز کیلئے کمیشن کی ڈیمانڈ، PAT کے توڑ کیلئے TLP بنائے جانے، کلبھوشن کے حوالے سے خاموشی اور گریز کی حرکات اور دیگر بدعنوانیوں پر کُھل کر وضاحت کر کے ان ملک دشمنوں کے سیاہ چہرے کو دکھایا۔
مفادات کے غلام اور اپنی برتری کے بھوکے ان سیاسی رہنمائوں اور گماشتوں خصوصاً ن لیگ کے نواز شریفی ٹولے کی ہر طرح کی کوشش ہے کہ کسی طرح اس حکومت سے خلاصی حاصل کر لیں۔ اس کیلئے ایک طرف وہ انتخابی اصلاحات کیلئے تیار نہیں تو دوسری طرف فوج مخالف بیانیہ اُچھال کر دبائو ڈالنے میں اپنی ساری تدابیر آزما رہے ہیں۔ زمینداروں، وڈیروں، خانوں اور سرداروں کی مٹھی میں دبے ہوئے اس نظام انتخابات میں مُردوں کے ووٹ ڈلوانے والے سیاستدانوں کو معلوم ہے کہ EVM سسٹم میں وہ جعلی ووٹ نہیں بھگتا سکتے ہیں اور رجسٹرڈ ووٹرز کی بنیاد پر انہیں مار پڑے گی اور فائدہ اس جماعت کو ہی ہوگا جس کو اصلی ووٹرز ہی منتخب کرنا چاہیں گے۔ قوم کے ان لٹیروں سے نجات کیلئے انتخابی اصلاحات ہی واحد حل ہے ورنہ یہ میر جعفر، میر صادق اسی طرح ملک دشمنی اور مفاداتی سیاست و سیادت کرتے رہیں گے جو یقیناً ملک و قوم کے ہر گز مفاد میں نہیں۔ حکومت اور عوام دونوں کو اس پر سوچنا اور عمل کرنا ہوگا۔ اس کیلئے باہم اعتماد، یکجہتی اور اشتراک لازم ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here