حیدر علی
یہ بھی ایک معجزہ سے کم نہیں کہ کراچی کی بارش اِس دفعہ امیر و غریب کے مابین یکساں تقسیم ہوئی ہے جہاں قیوم آباد اور کورنگی کے مکین اِس کے سیلابی ریلے میں تیر رہے ہیں ، وہاں پی ای سی ایچ کے بابو بھی اپنے ڈرائینگ روم کو دیکھ کر آنسو پر آنسو بہارہے ہیں اور چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ سلمہ ذرا دیکھو تو وہ شیر کا مجسمہ جو میں اٹلی سے خرید کر لایا تھاوہ بھی پانی میں ڈوبا ہوا ہے، سلمہ بیگم جواب دیتی ہیں کہ ”افسوس کرے کیا ہوت ہے، حکومت سندھ معاوضہ دے دیگی، لعنت جائے حکومت سندھ پر ، اگر حکومت سندھ کو عوام کی جان ومال کی اتنی ہی زیادہ فکر ہوتی تو آج یہ بارش کا پانی ہمارے عالیشان بنگلو ںمیں داخل نہ ہوتا، حکومت پانی کی نکاسی کیلئے سیوریج سسٹم ضرور بنایا ہوتا، دیکھتا ہوں کہ اِس مرتبہ انتخابات میں کون مائی کا لال یہاں ووٹ مانگنے آتا ہے۔“ہائے میرا سفید سیمنٹ کا بنا ہوا گھوڑا، ہائے میرا لکڑی کا بنا ہوا افریقن ہاتھی کا مجسمہ ، ہائے میرا سندھی آرٹ ورکس سب کا سب پانی میں تیر رہا ہے۔ایک صاحب ثروت اپنے گھر کیلئے چار فائیبر گلاس کی بنی ہوئی کشتیاں خرید کر لائے اور اُن کے گھر کے سارے افراد ایک کمرے سے دوسرے کمرے چپو چلاکر جاتے ہیں،وہ لوگ رات کوبھی کشتی پر سوار ہوکر سوتے ہیں لیکن ایک مرتبہ جب وہ صبح اٹھے تو کشتی گھر کے فرش پر پڑی ہوئی تھی کیونکہ پانی نکل چکا تھااِدھر معلوم ہوا ہے کہ میئر کراچی نے سندھ کے وزیر اعلیٰ کو تنبیہہ دی ہے کہ پانی نکالوورنہ اندر ہو جا¶گے، وزیر اعلیٰ نے غصے میں جواب دیا کہ تم بھی حساب کتاب کر لو کہ کتنا مال بنایا ہے،دوسری جانب شاہراہ فیصل اور قیوم آباد کے محنت کش عوام زندہ رہنے کیلئے بارش کے پانی میں ہاتھ پیر مار رہے ہیں، ایک پٹھان جو سیلابی پانی میں بہہ رہا تھا چیخ چیخ کر لوگوں سے دست بستہ تھا کہ مجھے بچا¶ ، مجھے بچا¶میں پانچ ہزار روپے دونگا۔ ایک ضعیف المرگ شخص نے جواب دیا کہ مرو، پانچ ہزار کیلئے میں اپنی جان گنوا¶ں، جا بہتا ہوا افغانستان واپس چلا جا، ایک نوجوان نے مسکراتے ہوے رسی اُس کی جانب پھینکی اور وہ اُسے پکڑ کر سیلابی نالے سے باہر نکل آیا۔ایک صاحب جن کی گاڑی پانی میں پھنس گئی تھی ، دو نو جوان اُن کے پاس آئے، وہ بہت خوش ہوئے کہ کراچی کے نوجوان جذبہ انسانی ہمدردی سے سرشار ہیں لیکن جلد ہی اُن کی امیدوں پر پانی پھر گیا جب اُن نوجوانوں نے اُنہیں بتایا کہ گاڑی کو بارش کے پانی سے نکال کر کسی خشک مقام پر پہنچانے کا وہ دس ہزار روپے معاوضہ لینگے،گاڑی والے صاحب کے پاس کوئی اور چارہ نہ تھا لہٰذا بات سات ہزار روپے پر طے پا گئی کیونکہ صبح ہونے تک اُنکی گاڑی کے پُرزے لاپتہ یعنی عدم الملک ہوجاتے۔ویسے کراچی میں اِن دنوں یہ ایک نیا کاروبار بن گیا ہے، جگہ باجگہ لوگ گاڑی میں پمپ لے کر گھوم رہے ہیں اور لوگوں کے گھر سے پمپ کے ذریعہ پانی نکالنے کا ٹھیکہ لیتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ ایک گھر کا پانی دوسرے گھر میں منتقل ہورہا ہے،ایک صاحب جو لاہور گئے ہوئے تھے جب واپس آئے تو اُنکا گھر سوئمنگ پول بنا ہوا تھا کیونکہ سارے محلہ داروں نے اپنے گھر کا پانی اُن کے گھر میں پھینک دیا تھا۔اُنہوں نے جب دیکھا تو کہا کہ جو کوئی بھی اِس سوئمنگ پول میں تیرے گا تو اُسے ٹکٹ خریدنی پڑے گی۔ وزیر اعلی سندھ نے کراچی کی پولیس جن کی تعداد ایک لاکھ تیس ہزار سے زائد کی ہے حکم دیا ہے کہ وہ بھی شاہراہوں سے پانی نکالنے کیلئے مقامی حکام کی مدد کریں تاہم پولیس اِس حکم کی تعمیل کرنے میں تذبذب سے کام لے رہی ہے، پولیس کا کہنا ہے کہ اُن کی بھرتی جرائم کے سدباب کیلئے کی جاتی ہے ناکہ شاہراہوں سے پانی صاف کرنے کیلئے یہ کام پولیس کا نہیں بھنگیوں کا ہے۔کراچی میونسپلٹی سے تعلق رکھنے والے بھنگیوں کی تعداد بھی تقریبا”چالیس ہزار نفوس پر مشتمل ہے لیکن بلدیہ کراچی کے خاکروبوں کو دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کراچی تا ہنوز دنیا کا ایک پسماندہ شہر ہے، اِس شہر کے خاکروبوں کے پاس پانی کی نکاسی کیلئے کافی تعداد میں پمپ بھی موجود نہیں ہیں اور جو ہیں اُن کے ساتھ لمبی پائپ بھی نادستیاب ہے، اِسلئے خاکروبوں کی مجبوری سر عام نظر آتی ہے، کہیں وہ بارش کے پانی کو جھاڑو سے نکالنے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں اور کہیں اپنی قمیض کے دامن سے پانی کو پھینکنے ہیں۔
بارش کے پانی نے عروس البلاد کراچی کے باغوں کو بھی اُجاڑ کر رکھ دیا ہے، رنگ برنگ پھولوں کے نادر پودے بھی سیلابی ریلے میں بہہ گئے ہیں لیکن جن لوگوں کو بھی یہ پودے ہاتھ آئے ، انھوں نے انہیں اپنے گھر لے جانے کو غنیمت سمجھا، ماہر شجریات نے کہا ہے کہ ایسے پودے دوہفتے تک دوبارہ لگائے جائیں تو وہ اُگ کر زندہ رہ سکتے ہیں۔یہ ایک مضحکہ خیز امر ہے کہ کراچی میں ہر سال دوسال کے بعد بارش کے پانی کا شوشہ شروع ہوتا ہے اور بارش کے تھمتے ہی دم توڑ دیتا ہے، یہ کوئی ایک دو دِن کی بات نہیں، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ سال 1973 ءمیں اپنے دفتر واقع آئی آئی چندری گر روڈ میں بیٹھا کام کر رہا تھا، دیکھتے دیکھتے گھٹائیں چھانے لگیں اور زوردار بارش شروع ہوگئی جو تقریبا”ایک گھنٹے تک برستی رہی، جب شام کے چار بجے میں اپنے دفتر سے گھر کیلئے باہر نکلا تو میری حیرانگی کی کوئی انتہا نہ رہی، آئی آئی چندری گر روڈ دو فٹ پانی میں جل تھل تھا۔ نیشنل بینک کے ہیڈ آفس میں بھی پانی داخل ہوچکا تھا، ایک گھنٹے کی بارش نے سارے کراچی کا نظام درہم برہم کردیا تھا لیکن شومائی قسمت آج 47 سال بعد بھی سارا شہر کراچی اُسی دوراہے پر کھڑ اہے، جہاں نصف صدی قبل تھا۔