بچّے ذرا برابر بھی خوفزدہ نہیں تھے!!!

0
51
حیدر علی
حیدر علی

کہتے ہیں کہ ماں کو غیب کی باتوں کا علم ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ جب کولمبیا کے زمانہ قدیم کے سودیشی قبیلے سے تعلق رکھنے والی خاتون ماگدالینا ویلنسیا بذریعہ طیارہ مشرقی جنوب کے قصبے اراراکوارا سے سان ہوزے ڈیل گوویئر جارہی تھی تو وہ اپنے ساتھ چھ پونڈ سے زائد کساوا کا آٹا رکھ لیا تھا ، اُس کے ہمراہ سودیشی قبیلے کا ایک رہنما ، طیارے کا پائلٹ اور اُسکے چار بچے جن کی عمر گیارہ ماہ ، چار ، نو اور تیرہ سال کے ہیں شریک سفر تھے تاہم ایمازون کے جنگل میں پائلٹ نے اچانک یہ اعلان کردیا کہ سیسنا طیارے کا انجن مکمل طور پر ناکارہ ہوچکا ہے ، اور چند ساعت بعد ہی طیارہ ایمازون کے جنگل میں درختوں سے ٹکراتا ہوا زمین دوز ہوگیا، طیارے کے بالغ مسافر اِس حادثہ میں موت کی نیند سوگئے ، لیکن اِسے آپ معجزہ عظیم ہی کہہ سکتے ہیں کہ چاروں بچے مکمل طور پر صحیح و سلامت رہے اور یہیں سے بچوں کے اُس کارنامے کا آغاز ہوتا ہے جس کا تاریخ میں کوئی ثانی نہیں، حادثے کے فورا”بعد بچوں کی ماں ویلنسیا زخمی ہونے کے باوجود ہوش میں تھی، اور بلاتعطل بچوں کو یہ حکم دیتی رہی کہ وہ فورا” طیارے سے باہر نکل پڑیں بعدازاں اُس نے اُن سبھوں کو یہ آگاہ کردیا کہ طیارے کے کیبنٹ میں اُن کیلئے کھانے پینے کی کیا کیا چیزیں ہیںجس میں کساوا کا آٹا قابل ذکر تھا تاہم وہ چار دِن تک موت و زیست کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد خدا کو پیاری ہوگئی،ریسکیو آپریشن کے اہلکار متوفی کی لاشوں اور طیارے کے ڈھانچے کو آٹھ دِن کے بعد دریافت کر نے میں کامیاب ہوئے۔اِسی اثناء تیرہ سالہ لیزلی اپنی بہن بھائیوں کو زندہ رکھنے کی ذمہ داری اپنے سر لے لی تھی، اُسے جنگل میں بودوباش کرنے کا کچھ تجربہ بھی تھا، کولمبیا میں مقیم سودیشی قبیلے کے لوگ ایمازون کے جنگل کو اپنی پہلی پناہ گاہ سمجھتے ہیں، اِسلئے وہ وقتا”فوقتا” جاکر جنگل میں رہنے کی تربیت اور جنگل کے قانون سے آگاہ ہوتے ہیں تاہم 40 دِن تک شہری زندگی سے کنارہ کشی اور اپنے رشتہ داروں سے جدا ہوکر جنگل میں بچوں کا رہنا ایک حیران کن امر ہی کہا جاسکتا ہے، ورنہ ڈِسکوری چینل پر دکھایا جانے والا ”نیکڈ اینڈ افریڈ ” شو میں بھی شرکا زیادہ سے زیادہ 21 دِن تک جنگل میں قیام کرتے ہیں ، اور اُن میں سے نصف حضرات اپنے قیام کے پہلے دِن ہی رونا دھونا اور سر پٹخناشروع کر دیتے ہیں ، اور بالآخر گھر کو لوٹ جاتے ہیں،اِس تناظر میں بچوں کی مہم جوئی قابل دید ہے ، اور یہی وجہ ہے کہ بچوں کی نانی فاطمہ ویلنسیا نے بلا جھجک یہ اعلان کردیا کہ 40 دِن تک ایمازون کے جنگل میں چار بچوں کا زندہ رہنے کا سہرا اُنکی تیرہ سالہ پوتی لیزلی کی لیڈر شِپ کی مرہون منت ہے ، اُن کی پوتی نے لیڈر شپ کا ایک ایسا نمونہ پیش کیا جس کی بدولت وہ ایمازون جنگل کے خطرناک جانور جن میں شیر، چیتا اور زہریلے سانپ شامل تھے ، اُن سے اُنہیں مزاحمت کی کوئی ضرورت پیش نہ آئی ، دوسری جانب وہ اپنے بھائیوں کی نگرانی کرتی رہی ، اِسی لئے وہ اُسے جنگل کی ہیروئین قرار دیتی ہے۔بچوں نے اپنے قیام وطعام کیلئے کیا بندوبست کیا تھا یہ بھی ایک دلچسپ خیز بات ہے، کیونکہ کساوا کا آٹا اور دوسری چیزیں جو اُن کی ماں نے اپنے ساتھ لایا تھا وہ 20 دِن بعد ہی ختم ہوچکا تھا، لہٰذا بچوں نے جنگل میں گشت لگاکر اپنے کھانے کی چیزوں پر ریسرچ شروع کردی تھی،اُنہوں نے جنگلاتی بیر ، بیر
اور جنگلاتی سیب دریافت کر لئے تھے لیکن بچوں کی ٹیم کی لیڈر لیزلی کو جنگلاتی پھل کھانے پر شدید تحفظات تھے ، اور وہ جانتی تھی کہ بعض پھل زہریلے ہوتے ہیں. اِسلئے اُن کا مزا وہ پہلے خود چکھنا چاہتی تھی، رات کا وقت جب جنگل میں خونخوار جانور دندنا شروع کر دیتے ہیں ، انتہائی خطرناک ہوتا ہے، لہٰذا اُن بچوں نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ وہ درختوں کے ٹرنک میں سویا کرینگے ، جس سے وہ کسی حد تک محفوظ رہے تھے، بچوں کا سراغ لگانے کیلئے تقریبا” 300 سے زائد افراد جن میں فوجی اور سودیشی قبیلے کے لوگ شامل تھے حصہ لیا تھا، اور بذات خود اُن کی کہانیاں بھی معلومات سے پُر ہیں۔20 دِن تک یہ افراد
کریش سائٹ کے قریب جھولے پر سوتے رہے تھے ، اور کھانے میں اُنہوں نے کریکر ، کینڈ فُڈ ، دریائی مچھلیاں اور پھل کھایا تھا، اِن افراد کو مختلف ٹولیوں میں تقسیم کردیا گیا تھا، اور تقریبا” دس ہزار فلائیرز ہیلی کاپٹر زکے ذریعہ ڈراپ کئے گئے تھے، بچوں کی دادی طاقتور لاڈ اسپیکر ہوئی تیتو (مقامی زبان )میں بچوں کو تلقین کی تھی کہ وہ حادثے کی جگہ کے قریب ہی رہیں ، اور ادھر اُدھر مارے مارے نہ پھریں لیکن بچوں نے فلائیرز دیکھنے اور اپنی دادی اماں کی نصیحت سننے کے باوجود جائے حادثہ کے 4 میل کے فاصلے پر اُس وقت پائے گئے جب اُن کا آمنا سامنا ریسکیو اہلکاروں سے ہوا تھا۔
بچے اور اُن کی والدہ ویلنسیا کو کولمبیا کے جنوبی علاقے سے بذریعہ طیارہ نقل مکانی کرنے کی کیا ضرورت پیش آگئی ، اِسکی وضاحت کرتے ہوے دو زندہ بچنے والے بچوں کے والد نے کہا کہ ” مسلح جنگجوؤں کے ایک گروہ جو اُن کے گھر پر قابض ہوگئے ہیں اور جو بچوں کو اغوا کرکے تخریب کاری کیلئے استعمال کرنا چاہتے ہیں ، اور جن کی خوف سے ہم اپنے بچوں کو محفوظ مقام پر منتقل کر دینا چاہتے ہیں۔ایک طویل عرصہ سے کولمبیا دہشت گردوں اور انقلابی آرمڈ فورسز کا مرکز بنا ہوا ہے اگرچہ 2016ء میں انقلابیوں نے ہتھیار ڈال دیا تھا، لیکن جن علاقوں سے اُن کا انخلاء ہوا تھا وہاں حکومتی فوج داخل ہونے سے گریز کرتی رہی ہے ، جس کی وجہ سے پرانے انقلابیوں کے ساتھ نوجوانوں کی نئی کھیپ شامل ہوگئی ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here