فورٹ بینڈ کائونٹی کے الیکشن میں جس طرح ہماری کمیونٹی تقسیم ہوگئی تھی اور ہم صرف اپنے اپنے امیدواروں کو کامیاب کروانے کی دوڑ میں لگ گئے تھے اور ہم یہ بھول گئے تھے کہ ہم آپس کے اختلافات بھلا کر اور متحد ہوکر الیکشن میں حصہ لینگے اور اپنی مسلمان کمیونٹی اور دیسی کمیونٹیز کے علاوہ دوسری کمیونٹیز میں بھی کام نہیں کرینگے تو ہم الیکشن نہیں جیت سکیں گے لیکن قدرت کا کرنا ایسا ہوا کہ ہمارا ایک امریکن پاکستانی نژاد نبیل شائق اس ریس میں جیت گیاجو ہماری کمیونٹی کی آنکھیں کھولنے کے لیے بہت بڑی مثال ہے اور ہمیں ری پبلکن اور ڈیموکریٹک ریس میں نکل کر صرف اور صرف اپنے نمائندوں کو سپورٹ کرنے کے لیے متحد ہونا ضروری تھا اور اس بات پر زور بھی دیا گیا کہ اب ہم اپنے اچھے نمائندوں کو آگے لائیں گے لیکن ایسا نہیں ہوسکا اور ہم اکٹھے نہیں ہوسکے اور فورٹ بینڈ کائونٹی سکول ڈسٹرکٹ الیکشن میں بھی ہم ایک نہ ہوسکے باوجود اس کے کہ ہمارے مسلمان اور پاکستانی ووٹروں کی تعداد کافی ہے اور ہم اگر چاہیں تو امریکن یا ٹیکس میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیںلیکن ہماری بدنصیبی یہی ہے کہ ہم یہاں کی سیاست کے بجائے اپنے ملک کی سیاست میں حصہ لینے کو ترجیح دیتے ہیںاور یہاں پر بھی وہی سیاست کر رہے ہیں جبکہ ہمارا مستقبل یہی ہے جس طرح فورٹ بینڈ کائونٹی میں ہمارے تینوں امیدواروں کو جو شکست ہوئی ہے وہ بھی صرف اور صرف ری پبلکن اور ڈیموکریٹک کے چکر میں ہوئی ہے۔ریحان احمد جوایک نیا نام تھا اور پوری طرح کمیونٹی ان سے وا قف نہیں تھی اس کے باوجود انہوں نے10.27%ووٹ لیے اور جبکہ ندیم نائیک جو ریحان احمد کے مقابلے میں زیادہ مقبول تھے انکو 2.89%ووٹ ملے ایک ہی سیٹ پر دو پاکستانی مقابلے میں کھڑے ہو گئے اور ہمارے کمیونٹی لیڈران نے ان دونوں نمائندوں کو بیٹھا کر یکجا نہیں کیا جس کا نتیجہ یہی ہونا تھا۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ ہمارے لوگ ووٹ کی اہمیت کو سمجھتے ہی نہیں ہیںاور گھروں سے نہیں نکلتے مجھے سب سے زیادہ افسوس ہماری ہوسٹن کی قابل ترین خاتون رفعت جیلانی جو کسی بھی اعتبار سے اس نشست کے لیے موزوں ترین امیدوار تھی ان کے ہارنے کا ہے اور افسوس جو اس نشست پر جیتے ہیں انکے ووٹروں کی تعداد کم تھی لیکن انہوں نے اپنے نمائندوں کو ووٹ دیئے یہی فرق ہے ،ہماری کمیونٹی اور دوسری کمیونٹیریز میں ہے کہ وہ ووٹ کی حیثیت سمجھتے ہیںاور ہم ابھی تک اپنی سیاست چمکانے میں لگے ہوئے ہیں۔اب بھی وقت ہے کہ ہوش کے ناخن لیں، یہ الیکشن تو ہم ہار گئے اور آنے والے2022کے الیکشن میں پھر وہی باتیں سامنے آرہی ہیں اور ہمارے دو نمائندے ذیشان اسحاق اور معید خان ایک ہی پوسٹ کے لیے لڑ رہے ہیں۔ذیشان اسحاق ڈیموکریٹک امیدوار ہیں اور معید خان ری پبلکن کی طرف سے لیکن ابھی تک یہ اطلاع نہیں ہے کہ وہ پارٹی ٹکٹ پر کھڑے ہو رہے ہیںکیونکہ کمشنر کی سیٹ ایک بہت بڑی پوزیشن ہے ،اس کے لیے پرائمری الیکشن ہوسکتے ہیں۔ میں صرف اس وقت سے ڈر رہا ہوں کہ ہمارے ان دونوں امیدواروں کا تعلق میڈیا سے ہے اور دونوں ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہو رہے ہیں ، مل بیٹھ کر فیصلہ کرلیںکہ کون کھڑاہوگا کیونکہ ہماری کمیونٹی میں لوگ اپنی سیاست کی وجہ سے امیدواروں کو قربانی کا بکرا بنا دیتے ہیں۔دونوں کو چاہئے کہ کچھ سبق سیکھ لیں اور اپنے مستقبل کے بارے میں اچھی طرح سوچ لیں تاکہ ہماری کمیونٹی کو کسی بڑے صدمے سے دوچار نہ ہونا پڑے۔افطار پارٹیوں اور عید ملن پارٹیوں میں لوگوں کو جمع کرنا آسان ہے۔لوگوں کو ووٹ کے لیے گھروں سے نکالنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔
٭٭٭