جاوید رانا، بیوروچیفشکاگو
سیاست کا کھیل دنیا بھر میں صاحبان اقتداراور اقتدار سے محروم افراد یا جماعتوں کے درمیان تنازعات، الزام تراشیوں اور چپلش سے ہی عبارت رہتا ہے لیکن ریاست کے ستونوں اور ذمہ داروں پر حرف زنی، ملکی سالمیت، اتحاد و استحکام سے کھیلنے کیلئے تمام حلقے اور طبقات یکجائی کی علامت نہیں بنتے ہیں، بلکہ ایک متحد و منظم قوم کے طور پر منظم ہوتے ہیں، امریکہ کی مثال لے لیں، ڈیمو کریٹس اور ریپبلکنز کے درمیان کتنا ہی اختلاف کیوں نہ ہو، معاملات سیاسی رقابت و اہداف تک ہی محدود رہتے ہیں، ملکی سالمیت کے اداروں، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور قومی معاملات پر کسی قسم کی تنقید یا بہتان طرازی سے گریز کرتے ہیں۔ ہم نے کبھی ڈیمو کریٹس یا ریپبلکنز کو عسکری ذمہ داروں، پینٹاگون یا عدالتی اشرافیہ کو ہدف ملامت بناتے ہوئے نہیں دیکھا۔ پاکستان غالباً دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں سیاسی اشرافیہ جب شکست سے دوچار ہو تو نہ صرف جیتنے والوں کو ہدف بناتی ہے بلکہ اپنے بیانیے میں عسکری اداروں، ذمہ داروں کو بھی اپنے مخالفانہ تیروں کا نشانہ بناتی ہے اور ان حدوں تک کو پار کر جاتی ہے جو ملکی سالمیت، بقاءاور متحد قوم کیلئے لازم و ملزوم ہیں۔ منفی رویوں اور اقدامات کا یہ عمل غالباً اس حقیقت کے باعث بھی ہو سکتاہے کہ پاکستانی سیاست میں کم از کم تین عشروں کے دوران ماضی کے طالع آزماﺅں کے اقدامات و آمرانہ تسلط نے پاکستان کے جمہوری، سیاسی منظر نامے میں بہت سی دراڑیں ڈالی ہیں، بلکہ جمہوری حکومتوں کے انتخاب میں بھی ان ہی طاقتوں کی مرضی شامل رہی ہے۔ اس حقیقت کو پیش نظر رکھتے ہوئے جبکہ پاکستان کے مقتدر ریاستی و عدالتی اداروں نے واشگاف انداز میں پاکستان میں جمہوری سیاسی نظام میں غیر جانبداری کا اعلان و عمل واضح کر دیا ہے، شکست خوردہ عناصر اپنی شکست کو ان اداروں اور ان کے ذمہ داروں کو اپنی ناکامی اور غیر مقبولیت کا باعث قرار دے کر نہ صرف منتخب حکومت کے درپے ہیں بلکہ وہ بیانیہ اور عمل پیش کر رہے ہیں جو ملک کے دشمنوں کے ایجنڈے کا عکس اور ملکی وحدت اور وقار کے منافی ہے۔
گزشتہ ہفتے کے واقعات ہمارے اس خیال کی تائید کی واضح تصویر ہیں، 2018ءمیں عمران خان کی تحریک انصاف کی کامیابی کے بعد سے ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں نواز لیگ اور پی پی پی کے ہمراہ پہلی بار انتخابات میں ہار جانے والے فضل الرحمن نے شروع دن سے حکومت کےخلاف اختلافی رویہ اپنایا ہوا ہے اور سلیکٹڈ وزیراعظم و حکومت قرار دیا ہے۔ اسی تناظر میں پی ڈی ایم تشکیل دی گئی اور اس نے اپنے مقاصد کے حصول کیلئے پروگرام ترتیب دیئے ہیں۔ 16 اکتوبر کو پی ڈی ایم کا پہلا جلسہ ن لیگ کے گڑھ گوجرانوالہ میں ہوا۔ عدالتوں سے نا اہل اور مجرم قرار دیئے ہوئے بیماری کے بہانے لندن جانے والے مفرور نوازشریف نے اس جلسے میں جو تقریر کی وہ کسی بھی طرح کسی پاکستانی محب وطن اور تین بار کے وزیراعظم رہنے والے شخص کی تقریر نہیں ہو سکتی۔ پاکستان کے آرمی چیف اور آئی ایس آئی کے سربراہ کےخلاف اس کی غلاظت آمیز باتیں واضح طور سے بھارت کے پروردہ کسی ایجنٹ کی تقریر تھی جسے نہ صرف بھارتی میڈیا اور حکومتی و عسکری قیادت نے فوج کےخلاف عوامی بغاوت قرار دیا بلکہ بعض پاکستان مخالف مغربی میڈیا نے بھی خُوب اُچھالا۔ صرف یہی نہیں بلکہ بھارتی پاکستان دشمن کارروائیوں میں بھی تیزی آئی۔ مکران (بلوچستان) وزیرستان اور تربت میں تین دن میں دہشتگردانہ حملوں میں پاکستان کے 22 سپوت ان حملوں میں شہید ہوئے۔ عساکر پاکستان نے ان دہشتگردوں کا قلع قمع تو کر دیا لیکن نوازشریف کی اس پاکستان دشمن حرکت نے ہمارے ازلی دشمن کو اپنی حرکات تیز کرنے اور اپنے مکروہ ایجنڈے پر عمل کرنے میں مہمیز کا کام کیا۔ چور، ڈاکو، لٹیرا، تین دفعہ وزیراعظم رہنے والا نوازشریف محض لٹیرا اور بھگوڑا ہی نہیں آستین کا سانپ بھی ثابت ہوا۔ وطن سے اپنے مفاد کیلئے غداری کرنےوالے اس شخص کا انجام واضح نظر آرہا ہے۔ پنجاب کے بل بوتے پر عوامی مقبولیت کی دعویدار ن لیگ کے اپنی جماعت کے متعدد رہنما اور ووٹرز بھی نوازشریف کے اس ایجنڈے کے مخالف ہو چکے ہیں اور راہ مفر اختیار کر رہے ہیں۔
18اکتوبر کا پی ڈی ایم کا جلسہ گو کہ پیپلزپارٹی کی میزبانی اور صوبائی حکومت و پارٹی مقبولیت کے باعث گوجرانوالہ کے مقابلے میں تو بہتر ہوا نوازشریف کی ملک دشمنی پر مبنی زہر افشانی کے باعث اسے خطاب کا موقع بھی نہیں دیا گیا لیکن مزار قائد اعظم کے مقابل ہونےوالے اس جلسے میں نوازشریف کے داماد صفدر اعوان اور ن لیگی ارکان نے مزار قائد پر جس مکروہ حرکت کا مظاہرہ کیا اور مزار کے تقدس کی دھجیاں اُڑائیں، وہ حُرمت و تقدس کی پامالی کا بدترین ارتکاب تھا۔ دنیا بھر میں اس قسم کی کمینگی کی مثال کہیں بھی نہیں ملتی کہ وطن کے بانی کی قبر پر اس طرح کی حرکات کی جائیں۔ ہم تو اس مذہب کے ماننے والے ہیں کہ جہاں قبرستان کی حرمت و تقدس کی بلند آواز سے بولنے میںبھی ممانعت ہوتی ہے۔ مزارات پر دعا و فاتحہ کے علاوہ کسی بھی عمل کوبرا سمجھا جاتا ہے نہ کہ نعرہ بازی اور دھماچوکڑی کی جائے۔
خیر نتیجتاً صفدر اعوان قانون کے مطابق گرفتار ہوا، ضمانت ہوئی اور مریم کےساتھ لاہور روانہ ہو گیا۔ ہاں البتہ یہ ثابت ہو گیا کہ ن لیگ اپنی اغراض کی دُھول سے اَٹ کر سیاسی منظر نامے سے معدوم ہوتی جا رہی ہے۔
ن لیگ کی ان حرکات اور پالیسیوں نے نہ صرف اس جماعت کو بلکہ مخالف جماعتوں کے منصوبوں اور لائحہ عمل کو بھی نہ صرف متاثر کیا ہے خصوصاً پیپلزپارٹی کیلئے بڑی مشکلات کھڑی کر دی ہیں۔ اس صورتحال میں پی ڈی ایم اپنے اہداف مکمل کر سکے گی؟ کیا موجودہ حکومت کو گرا سکے گی جبکہ موجودہ حکومت اور ریاستی ادارے ایک ہی صفحہ پر ہیں اور مریم نواز کا صفحہ پلٹنے میں دیر نہ لگنے کا دعویٰ، محض دعویٰ ہی نظر آتا ہے۔ ہاں البتہ یہ ہو کہ ن لیگی صفحہ محض کاغذ کا ایک ٹکڑاہی رہ جائے اور باقی صفحات کسی اور مسودے کا حصہ بن جائیں۔ خیر یہ تو آنے والا وقت ہی ثابت کرےگا البتہ زرداری صاحب کے بغرض علاج باہر جانے کی خبریں ضرور گردش میں ہیں۔ ہاتھ ہلکا رکھنے کی خبریں بھی اب راز نہیں رہیں، حکمرانوں کے انداز اور بیانات بھی بہت اشارے دے رہے ہیں۔ ن لیگ کا مستقبل شیخ رشید کے بقول تنہائی یا ٹکڑوں کی صورت میں نظر آرہا ہے۔ اس کی تمام تر ذمہ داری نوازشریف کی خود غرضانہ، منافرانہ اور منافقانہ فطرت کی وجہ سے ہے۔ فوج کے ہاتھوں سیاست میں آنے، تین بار وزیراعظم رہنے والے نوازشریف نے چھ آرمی چیفس، آئی ایس آئی کے سربراہوں اور انصاف کے اداروں سے اپنی متذکرہ فطرت کے باعث جس طرح لڑائی رکھی ہے اس کی مثال اس آستین کے سانپ کی ہے جو آستین میں پلتا ہے اور ڈستا ہے لیکن بالآخر کُچل دیا جاتا ہے۔ ویسے بھی نوازشریف اور ن لیگی یہ بُھول چکے ہیں کہ پنجاب بلکہ پورا پاکستان فوج پر بھروسہ اور اعتماد کرتاہے اور فوج کی مخالفت کر کے عوامی اعتماد کا حصول ناممکن ہے قوم جانتی ہے کہ معاملات داخلی ہوں یا سرحدوں سے پار مداواہمارے عساکر کے ہی پاس ہے۔مفادات کے دائروں میں بٹی ہوئی سیاسی اشرافیہ(بشمول حکومت)نظام اور عوام کے لیے کچھ نہیں کرسکتی۔
٭٭٭٭٭