عزم استحکام کی آڑ میں!!!

0
5
جاوید رانا

قارئین محترم، عید گزرگئی، پاکستانی کرکٹ ٹیم کی ٹی 20 ورلڈ کپ میں بدترین شکست کے بعد قوم کے جذبات کے غبارے سے ہوانکل چکی ہے اور سیاسی ناٹک دوبارہ شروع ہو چکا ہے دیکھنا یہ ہے کہ سیاست کا اونٹ اب کونسی کروٹ لے گا۔ ہم نے اپنے گزشتہ کالم میں عرض کیا تھا کہ جس طرح کا سیاسی انتشار وطن عزیز میں برپا ہے اور اس کے تناظر میں اداروں کے در میان نزاعی صورتحال پیدا ہو رہی ہے وہ کسی بھی طرح وطن اور قوم کیلئے بہتری کا پیام نہیں ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وطن عزیز کے سیاسی، ریاستی و عدالتی ارباب اختیار کو وطن کی بہتری و عوام کی خوشحالی کے برعکس ذمہ داران کو اپنے مفادات و اغراض زیادہ عزیز ہیں اور ان کے حصول کیلئے ہر وہ حربہ آزمایا جا رہا ہے جو ان کے حق میں ہو، ملک و عوام بھاڑ میں جائیں۔
گزشتہ ہفتے بجٹ کے حوالے سے جو کھیل پارلیمان اور حکومتی اتحاد کے درمیان کھیلا گیا وہ واضح طور سے یہ تیرا یہ میرا کی تصویر تھا۔ ایک جانب پیلزپارٹی نے گڈ کاپ بیڈ کاپ کا کھیل کھیلتے ہوئے پنجاب میں اسمبلی، حکومت سے لے کر پرائس کنٹرول کمیٹیوں تک مجبور و لنگڑی لولی حکومت سے اپنا حصہ منوا لیا تو دوسری طرف آصفہ بھٹو اور ماروی میمن نے اپنا ووٹ بینک مستحکم رکھنے کیلئے پارلیمان میں بجٹ کی دھجیاں اُڑا دیں۔ دو رخی کی کہانیاں تو ن لیگ سے بھی آرہی ہیں کہ بڑے میاں ڈوبتی ہوئی عوامی حمایت و کمزور حکومت کو بچانے کیلئے پارلیمان میں اپنی نشست کے برعکس پنجاب میں ووٹ بینک پر بطور صدر توجہ دینا چاہتے ہیں۔ اب حقیقت یہی ہے کہ بڑے میاں صاحب کو الیکشن ٹربیونل کے متوقع فیصلے کی پیش بینی سامنے نظر آرہی ہے۔ اس خدشہ کے پیش نظر اور پی ٹی آئی کی اس نشست و دیگر نشستوں کی کامیابی کو سامنے رکھتے ہوئے میاں صاحب اپنی جماعت کے دھڑن تختہ ہونے کو بچانا چاہتے ہیں اور اپنی بقاء کی جدوجہد میں مقتدرہ مخالف بیانیہ اختیار کرنا چاہتے ہیں۔
ہمارا اندازہ تو یہ ہے کہ بڑے میاں صاحب کا یہ ارادہ قابل عمل ہوتا نظر نہیں آتا، خود ان کے وزیراعظم بھائی اور وزیراعلیٰ بیٹی بھی اس کے حامی ہوتے ہوئے نظر نہیں آتے کہ ان کی حکومتیں مقتدرہ کے رحم و کرم پر ہی تو قائم ہیں اور فیصلہ ساز ہر گز اس بات پر راضی نہیں ہو سکتے کہ کسی بھی اقدام کے نتیجے میں عوام کی سب سے زیادہ حمایت یافتہ پی ٹی آئی اور اس کے قائد عمران خان کے ہاتھوں میں زمام اقتدار آجائے۔ گُڈ کاپ، بیڈ کاپ کا کھیل تو دُور کی بات ہے، فیصلہ ساز تو اس امر پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ پی ٹی آئی اور عمران خان کو کسی بھی طرح کا ریلیف کم از کم 5 نومبر تک نہ مل سکے خواہ وہ ریلیف عدلیہ کے توسط سے ہو یا دیگر کسی دبائو کے نتیجے میں ہو۔
مقتدرین کے عمران مخالف ڈھائی سالہ رویوں اعمال اور اقدامات پر نظر ڈالیں تو حقیقت بہت واضح ہے کہ بیشتر عدالتی فیصلوں کے باوجود عمران اور ساتھیوں کو رہائی اور دیگر ریلیف نہیں مل سکے ہیں، نو مئی کے معاملے میں اسٹیبلشمنٹ سربراہ اپنے ارادے اور مقصد میں ٹس سے مس نہیں ہو رہے ہیں۔ اب ایک نیا فارمولا عزم استحکام کے نام سے لایا جا رہا ہے۔ گو اس کے TORs ابھی تک سامنے نہیں لائے گئے ہیں لیکن ISPR کے مطابق اس کا مقصد دہشتگرد افراد و ٹولوں کیخلاف ایکشن کرنا ہے جو وطن عزیز میں دہشتگردی کی وارداتوں، فوجی اور سول شہادتوں میں ملوث ہیں۔ ہم اس صداقت سے بھی انکار نہیں کر سکتے کہ اندرون ملک اور سرحد پار سے ٹی ایل پی، را کے ایجنٹوں، بی ایل اے اور دیگر قوم پرست و علیحدگی پسند جماعتوں کی بڑھتی دہشتگردانہ سرگرمیوں نے نہ صرف وطن عزیز کو سخت متاثر کیا ہے بلکہ فوجی و سول بیٹوں کی شہادتوں میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے، سینکڑوں خاندانوں کی بربادی ہوئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایکشن پلان پر اب تک پوری طرح عمل کیوں نہیں ہو سکا اور اس کی ذمہ داری کس پر آتی ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ راہ حق ضرب عزب ،راہ راست ،رد الفساد اور ا پی ایس سانحہ کے بعد ہونیوالی کارروائیوں کے نتائج کیا نکلے، 9/11 کے بعد سے ہونیوالی دہشتگردی کیخلاف کس حد تک قابو پایا جا سکا، جو اب عزم استحکام کا فارمولا لایا جا رہا ہے۔
اگرچہ عزم استحکام پر عمل کرنے کیلئے ابھی کوئی واضح تفصیلات سامنے نہیں آئی ہیں، البتہ ہماری اطلاع کے مطابق اس کا عملی دائرہ کار پختونخواہ، قبائلی علاقوں اور بلوچستان تک محیط ہوگا، سوال یہی پیدا ہوتا ہے کہ سندھ و پنجاب میں کیا دہشتگردی ختم ہو گئی ہے، کیا سندھ و پنجاب میں کچے کے علاقوں میں ڈاکوئوں کی سرگرمیاں دہشتگردی کے زمرے میں نہیں آتیں یا پھر وہاں کے حکمرانوں، انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والوں کیلئے بوجوہ قابل قبول ہیں۔ وجوہ کیا ہو سکتی ہیں قارئین بخوبی سمجھتے ہیں۔ عزم استحکام کا اعلان بذریعہ آئی ایس پی آر ہوا، اور معاملے کو اپیکس کمیٹی میں زیر غور لانے کا فیصلہ کیا گیا تاہم ایوان میں پی ٹی آئی، دیگر مخالفین اراکین حتیٰ کہ اتحادیوں کے اعتراض پر معاملہ ایوان میں لانے پر اتفاق تو ہوا تاہم رانا ثناء اللہ کے ایک پروگرام عزم استحکام کی وضاحت کرتے ہوئے دہشتگردوں کے ساتھ عزم استحکام کرنے والوں کیخلاف ایکشن کی بات نے اس اقدام کو پی ٹی آئی کے رہنمائوں، سپورٹرز کو بالخصوص اور دیگر موجودہ رجیم کی مخالف جماعتوں کیخلاف نئے ہتھیار کا سندیسہ قرار دیدیا ہے۔ مولانا نے صاف کہہ دیا ہے کہ کے پی کو عشروں سے غلام رکھنے والوں پر مزید غلامی کی اجازت نہیں دی جائیگی۔ سیاسی جماعتوں کی سخت مخالفت کے سبب اس ایشو پر کابینہ اجلاس میں آپریشن کی جگہ مشن کا نام دے کر عزم استحکام کو انٹیلی جنس بنیاد پر کرنے کا اظہار تو ہوا ہے لیکن ہمارا تجزیہ تو یہ ہے کہ عمران اور اس کے حمایتی عوام پر جبر و استبداد کا نیا ہتھیار آپریشن عزم استحکام کی صورت میں لایا جا رہا ہے لیکن ہمارا یقین ہے کہ عمران اور عوام کے عزم و ہمت کو پھر بھی متزلزل نہیں کیا جا سکے گا اور فتح عوام، آئین و جمہوریت کی ہی ہوگی۔
آفتاب اُبھرے گا دھرتی کے سیاہ چہرے سے
انقلاب آئے گا مٹ جائیں گے سب جورو و ستم
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here