عزت کا معیار!!!

0
163
رعنا کوثر
رعنا کوثر

رعنا کوثر

اگر ہم اپنے معاشرے کو دیکھیں تو ہمارے ہاں بلکہ خاص طور پر انڈیا، پاکستان اور بنگلہ دیش میں بعض کاموں کو اچھا اور بعض کاموں کو برُا سمجھا جاتا ہے لیکن اس اچھا یا برُا سمجھنے کے لیے کوئی معقول وجہ نہیں ہے۔بس یوں ہی مختلف خیالات اور مختلف باتوں نے مل جل کر کچھ کاموں کو ذلیل اور کچھ کاموں کو باعزت قرار دے دیا ہے۔
مثلاً اگر کوئی شخص آفس میں کام کرتا ہے تو اسے عزت مل جاتی ہے کوئی شخص اگر چھوٹا سا ٹھیلہ لگالے۔چل پھر کر معمولی چیزیں فروخت کردے۔پھل اور ترکاریاں بیجنا شروع کردے تو یہ بہت چھوٹے کام سمجھے جاتے ہیں اور ان کے مقابلے میں بڑی جگہوں پر کام کرنے والوں کا مقام بہت اونچا سمجھا جاتا ہے اگر ہم دوسروں کی اصلاح کرنے کی بجائے اور دوسروں کے خیالات کو بدلنے کی بجائے اپنی سوچ کو بدل کر یہ سوچیں گے دنیا میں کوئی بھی کام جو محنت سے کیا جائے اور حلال روزی کمائی جائے برُا نہیں ہوتا تو ہمارے اندر سے وہ احساس کمتری نکل جائے اور ایک بڑا انقلاب آجائے جو انسان کو چوری، رشوت، جھوٹ اور سفارش سے بچا لے۔اگر ہم یہ سوچ لیں کہ ایک عام انسان معمولی سی نوکری کرنے والا یا چھوٹا سا بزنس کرنے والا شریف ہے معمولی گھر میں رہتا ہے مگر عام سا سامان گھر میں رکھتا ہے مگر سچا انسان ہے سیدھا سادھا ہے رشوت نہیں لیتا۔اپنی زندگی سے مطمئن ہے اس انسان کی اسی طرح عزت کریں جیسے کسی ڈاکٹر انجینئر یا بڑے بزنس مین کی کرتے ہیں تو سوچ کا یہ انداز بہت سارے گھرانوں کو سکھ چین نصیب کرسکتا ہے۔ورنہ ایک انسان کی مادہ پرست سوچ بڑے آدمی کی عزت یہ سوچے سمجھے بغیر کرنے والی سوچ کے یہ پیسہ کہاں سے آیا ہے ایک عام محنت کش انسان کا دل توڑ دیتی ہے اس کی اولاد کے اندر برائی کا بیج بو دیتی ہے۔جب وہ یہ دیکھتا ہے کہ اس کے باپ کی ایک خوانچہ لگانے کی وجہ سے کوئی عزت نہیں ہے تو وہ چوری کرکے رشوت لے کر جھوٹ بول کر بڑا آدمی بننے کی کوشش کرتا ہے۔یوں کہنے میں یہ بات ایسی ہے کہ ہر شخص اس کی تائید کرےگالیکن دراصل اپنے دل کی گہرائیوں میں جھانک کر اپنے آپ کو اچھی طرح دیکھیں گے کیا واقعی ہم اپنے آپ کو اسی طرح محسوس کرتے ہیں۔کیا سچ مچ ہم عزت کسی کو محض اس کی شرافت، محنت اور اخلاق کی وجہ سے دیتے ہیں یا پہلے ہم اس کے ظاہری رکھ رکھاﺅ اور تعلیم اور اچھی نوکری سے متاثر ہو کر اسے عزت دیتے ہیں عزت تو سب کو دینا چاہیے۔مگر چھوٹے کام کرنے والوں کو اگر بےنظیر سے گرا نہ سمجھیں تو وقت پڑنے پر ہم اتنی ہمت کر پائیں گے کہ خود بھی کوئی چھوٹا کام کرنے میں عارنہ سمجھیں گے۔آج کل کروناوائرس کی وجہ سے بے شمار لوگ نوکریوں سے محروم ہو رہے ہیں۔اس لیے اپنی معاشی الجھنوں کو دور کرنے کے لیے یہ سب سے پہلا اور ضروری کام ہے۔یہی وقت ہے کہ سب سے پہلے عزت اور ذلت کے بارے میں اپنا ذہن صاف کرلیں ،ہم نے عزت اور ذلت کے جو پیمانے بنائے ہوئے ہیں ان سب کو توڑ ڈالیںاور کم ازکم اپنے لیے عزت اور ذلت کا فیصلہ کرنے کے لیے اپنی سوچ کو بدل لیں۔
چاہے امریکہ ہو کے پاکستان بے روزگار افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے بے شمار لوگ ہاتھ پھیلائے نظر آرہے ہیں اچھے کھاتے پیتے لوگ سڑک پر آگئے ہیں۔بہتر ہے کہ کوئی بھی کام کریں اس کو عزت خود دیں۔معاشی حالت بھی ٹھیک ہو جائے گی اور جو لوگ اچھے حالات میں ہیں وہ بھی اپنی سوچ بدل لیں جوتے مرمت کرنے سے کوئی کم نہیں ہوجاتا۔حتٰی کہ ہاتھ پھیلانے سے بہتر ہے کے چھوٹے سے چھوٹا کام کرلے اور دیکھنے والا ذلیل نہ سمجھے۔انسان خوش رہ سکتا ہے اگر وہ اپنی سوچ بدل لے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here